Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saba Javed
  4. Ye Munh Aur Masoor Ki Daal

Ye Munh Aur Masoor Ki Daal

یہ منہ اور مسور کی دال

صبح جب گھر سے نکلے تو دیکھا کہ گلی کے کونے پر کچرا جمع ہے۔ دل میں خیال آیا کہ ہماری قوم کبھی سدھر نہیں سکتی۔ عوام کے رویّوں پر افسوس کرتے ہوئے ہم نے بھی بسکٹ کا خالی لفافہ اسی کچرے کے ڈھیر میں ڈال دیا اور اطمینانِ قلب کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔

بس اسٹیشن پر پہنچے تو لوگوں کو دھکم پیل کرتے دیکھا۔ یہ منظر دیکھ کر یہ سوچ پیدا ہوئی کہ جو قوم نظم و ضبط سے عاری ہو، وہ ترقی کی راہ پر کیسے گامزن ہو سکتی ہے؟ لیکن اسی غور و فکرکے دوران ہم نے خود بھی دو چار افراد کو پیچھے کرکے قطار میں اپنی جگہ بنائی اور چند کو تنبیہ بھی فرما دی۔

بس میں بیٹھنے کے بعد احساس ہوا کہ آج کے نوجوان بزرگوں کے احترام سے ناواقف ہیں۔ ایک ضعیف خاتون کو کھڑے دیکھ کر دل میں افسوس تو ہوا، مگر چونکہ ہمیں طویل سفر درپیش تھا، اس لیے یہ نیکی کسی اور موقع کے لیے مؤخر کر دی۔

یونیورسٹی پہنچے تو چوکیدار کو دیکھ کر محنت و ریاضت کی عظمت کا خیال آیا۔ مگر اگلے ہی لمحے ذہن اس طرف مائل ہوا کہ اگر ہم نے ٹیسٹ یاد نہ کیا تو ہماری حالت بھی کسی مزدور سے مختلف نہ ہوگی۔

کلاس میں داخل ہوئے تو طلبہ کو سوشل میڈیا میں مگن پایا۔ دل ہی دل میں اس زوال پر رنج ہوا۔ چونکہ استاد ابھی تشریف نہیں لائے تھے، اس لیے وقت گزاری کے لیے چند لمحے ہم نے بھی ریلز دیکھنے میں صرف کر دیے۔

استاد کے داخل ہوتے ہی شور و غل بڑھا تو سوچا کہ قوم کی اصلاح استاد کے احترام سے شروع ہوتی ہے۔ اسی خیال کے زیرِ اثر ہم نے یہ نکتہ اپنے دوست کے ساتھ تفصیل سے زیرِ بحث لایا۔ خوش قسمتی سے ہماری گفتگو نے استاد کے لیکچر میں کوئی خاص خلل پیدا نہ کیا۔

لیکچر کے اختتام پر جب یہ محسوس ہوا کہ ہم تمام تر توجہ کے باوجود آج کا موضوع سمجھنے سے قاصر ہیں تو دل سے صدا اٹھی کہ آج کے استاد صرف ملازمت انجام دیتے ہیں، تعلیم و تربیت کا فریضہ نہیں۔

اسی خیال کے ساتھ ہم کینٹین کی طرف بڑھے۔ وہاں یہ منظر دیکھ کر افسوس ہوا کہ طلبہ بل ادا کیے بغیر اشیاء لے جا رہے ہیں۔ تاہم جب ہم نے سو روپے کا ایک پرانا نوٹ پیش کیا، جسے کئی دکاندار مسترد کر چکے تھے، تو یہ کینٹین والا خوش اخلاق شخص نہ صرف نوٹ قبول کر گیا بلکہ ہمیں پانچ سو روپے کے مساوی سامان بھی عطا کر دیا۔ ہمیں اس کی نیک دلی کا شکریہ ادا کرنے کا موقع نہ ملا، کیونکہ واپسی کا وقت قریب تھا۔

راستے میں ایک لنگر خانے کے باہر بھیڑ دیکھی تو احساس ہوا کہ غربت کس طرح اس معاشرے کی رگوں میں سرایت کر چکی ہے۔ افسردہ دل کے ساتھ گھر پہنچے تو والدہ نے "کدو شریف" تیار کر رکھا تھا، جس سے طبیعت میں ناگواری پیدا ہوئی۔ لہٰذا دل بہلانے کے لیے شوارمہ منگوا لیا۔

نہانے گئے تو معلوم ہوا کہ کپڑے ابھی دھلے نہیں۔ خیال آیا کہ آخر روز کے کپڑے روز دھونے میں کیا برائی ہے؟ غصے میں آ کر نوکر پر خفگی کا اظہار کیا، پھر تیار ہو کر مطالعہ گاہ میں جا بیٹھے۔ یاد آیا کہ دو ماہ قبل دی گئی اسائنمنٹ کی جمع کرانے کی آخری تاریخ کل صبح ہے۔ چنانچہ اسی وقت قلم اٹھایا اور پہلی فرصت میں اس کو مکمل کرنے کی ٹھانی، کام مکمل کرکے تھکن کے عالم میں بستر پر جا لیٹے۔

نیند سے قبل یہ خیال دل میں ابھرا کہ ہمارا تعلیمی نظام طلبہ پر کس قدر ذہنی دباؤ ڈال رہا ہے، یہاں تک کہ نفسیات اب ایک الگ ضرورت بن چکی ہے۔

بستر پر لیٹے شاعر کے یہ اشعار یاد آئے:

خواہش سے نہیں گرتے پھل جھولی میں
وقت کی شاخ کو میرے دوست ہلانا ہوگا

کچھ نہیں ہوگا اندھیروں کو برا کہنے سے
اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہوگا

واقعی، اگر ہم اپنی اصلاح خود سے شروع کریں تو معاشرہ خود بخود سنور جائے۔ لیکن افسوس، ہم میں سے ہر ایک تبدیلی کا منتظر ہے، کوئی پہل کرنے والا نہیں۔

حقوق و فرائض کی ادائیگی میں اگر ہم فرائض کو اولین ترجیح دیں حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔

دن بھر کی مشقت کے باعث نیند نے ہمیں آ لیا، ورنہ ہم رات بھر نوجوان نسل کی سہل پسندی پر سوچتے!

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz