Long Aur March
لونگ اور مارچ
دیگر مصالحوں کی طرح صحت کے حوالے سے لونگ نہ صرف مفید بلکہ بارہ مصالحوں کا بادشاہ ہے۔ منہ کی اندرونی صحت کے ساتھ لونگ کے ماؤتھ واش کو دنیا کے سب سے مہنگے ماؤتھ واش سے بہتر اور مؤثر قرار دیا گیا ہے۔ البتہ ہر دوائی کو غلط وقت اور مقدار پر لینے کی طرح لونگ کے نقصانات بھی ہیں۔ مثال کے طور پر لونگ کا تیل ایسی جلن پیدا کرتا ہے جو سخت تکلیف دہ ہے جس میں مقدار کی کمی بیشی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔
مارچ کا مہینہ قرارداد پاکستان کے حوالے سے بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ 23 مارچ 1940 کے لاہور میں منٹو پارک میں مسلمانان ہند کا ایک عظیم الشان اجتماع منعقد ہوا جس میں تمام ہندوستان کے مختلف علاقوں سے مسلمانوں نے قافلے کی صورت سفر کرکے شرکت کی اور ایک قرارداد منظور کی۔ اسی طرح ڈانڈی مارچ یا نمک مارچ بھی تحریک آزادی ہند کا اہم واقعہ ہے۔ جس میں 12 مارچ 1930 کو گاندھی نے اپنے 80 ستیہ گری ساحلی شہر ڈانڈی گجرات کی طرف پیدل مارچ کیا۔ یہ مارچ 390 کلو میٹر (240 میل) تھا۔ نمک مارچ کو وائٹ فلوئنگ ریور(White Flowing River) بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس مارچ میں شریک سب افراد نے سفید کھدر پہنی ہوئی تھی اور وہ پتھر اٹھائے کسی کو بد دعائیں نہیں دے رہے تھے۔
ان واقعات کا مارچ کے ساتھ تو تعلق ہے لیکن لونگ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ لونگ اور مارچ کا تعلق طے کرنا ہمارے ہاں اب کار منصفی سمجھا جاتا ہے۔ معاشرتی رویوں اور اخلاق و کردار کی سند بھی معاشرے سے نہیں منصفی کے کارخانوں سے ہی جاری ہوتی ہے۔
لوڈ شیڈنگ کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں کارخانوں میں مال تیار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کاغذی کارخانوں میں پستول اور کارتوس دونوں کے تناسب کا خاص خیال رکھا جاتا یہ بھی طے کیا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ بھی وہیں ہوتا ہے کہ کس وقت بجلی فل وولٹیج کے ساتھ آئے گی اور مشینیں کام کریں گی۔ بجلی کے وولٹیج پورے نہ ہوں تو مشینوں کی کارکردگی بھی سست اور غیر معیاری ہو جاتی ہے۔
وولٹیج جاری کرنے کا اختیار ہم میں سے کسی کے پاس بھی نہیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں کاٹھ اور کاغذ کی صداقت مسلم ہے سو بہت سے کاغذی منصوبوں کی طرح بہت سے کارخانوں میں ہوائی سندیں بھی جاری کی جاتی ہیں۔ ایسی سندوں کی تشہیر فلیکس کے ذریعے شہر بھر کی دیواروں پر نقش کی جاتی ہے۔ کاٹھ کی ہانڈی ہمیشہ چولھے پر ہی چڑھی رہتی ہے۔ ڈھول بجے چلا جاتا ہے اس کا پول کبھی نہیں کھلتا۔ کاغذ کے گھوڑے دوڑتے دوڑتے کتنی ہی جنگیں جیت چکے ہیں۔ محض کاغذی کارروائی اور عملی طور پر ناکارہ کاغذ کی ناؤ کو کھینے والے سردار ہیں۔
"سَرِ دار" ایسے مجاہد ہیں جو کاغذوں میں گم نام ہونے والے ہیں اور ان کے نام بے شمار خطائیں درج کی جاتی ہیں۔ کاغذ کے گھوڑے دوڑانے والے اسے مشقت و ریاضت کا نام دیتے ہیں۔ کاغذ کی یہ ناو کبھی نہیں ڈوبتی۔ پس ثابت ہوا کہ صرف کابل میں ہی نہیں، گدھے ہر جگہ موجود ہیں۔ محاورہ ہے "کالے کے آگے چراغ نہیں جلتا"۔ مشہور ہے کہ اگر گھر میں چراغ جل رہا ہو اور ناگ سانپ آ جائے تو وہ پھونک مار کر چراغ کو بجھا دیتا ہے۔ کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ ظالم شخص کو ذرا سی نیکی بھی نہیں بھاتی۔
بس کاغذ کی ناؤ ملک بھر کی شاہراہوں پر بہائی جاتی ہے۔ اور ننھے بچے اور کچے اذہان کو لبھا کر اس میں "اسلامک ٹچ" کا رنگ ڈال کر اسے آزمودہ بنا کر سب کو اس میں سوار کیا جاتا ہے۔ یہ ناؤ جہاں کم زور پڑے اورپھٹنے لگے، حکومت وقت کو خوب گالیوں اور بد دعاؤں سے نوازا جاتا ہے۔ ایسے معاملات میں لونگ کی افادیت مدھم پڑ جاتی ہے اور آنکھوں میں جلن ہونے لگتی ہے۔ جاں بلب مریضوں کو کب یہ سمجھ آتی ہے کہ لونگ ہر بیماری اور تکلیف میں موثر نہیں ہو سکتا۔ ہمارے ہاں منافقین کی طرز پہ دو لخت لاشے ہیں۔
دل کے وَرَق پہ ثبت ہیں صد مہرِ داغِ عشق
وہ ستم ظریف تو اپنی دکاں بڑھا گئے ہیں جن پہ ذوق کا شعر صادق آتا ہے۔
ہم کرتے ذوق عشق کا دعویٰ سنَد سے ہیں
کاغذی سندوں سے عشق و شعور کے دعوی نہ تو نبھائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی رد ہو سکتے ہیں۔ والیم ٹین کھلے نہ کھلے، بہت سے دیگر معاملات ایسے کھلے، ایسے کھلے کہ بند قبا کی طرح لپیٹے نہ جا سکے۔ لونگ پر ھو الشافی کا ورد پڑھنے سے کارکردگی میں رنگ نہیں اتر سکتے۔ مان لیجیے۔ شفائے کاملہ کی ضرورت ہے تو صبر سے معاملات چلنے دیجیے۔ اونٹ کسی کروٹ تو بٹھا دیجیے۔
عقل مندی یہ نہیں کہ اونٹ کو باڑے سے نکال پر چوراہے پر کھڑا کر دیا جائے اور سادہ لوح عوام کو کٹورے تھما دیے جائیں۔ طویل انتظار کے بعد پتہ چلے کہ دودھ اونٹنی دے سکتی ہے۔ اونٹ صرف کینہ رکھتا ہے۔ صحراؤں کا بادشاہ جنگل کا شیر نہیں ہو سکتا۔ شعبدہ بازی کا زمانا لد چکا۔ سوشل میڈیا پہ شعبدے نہیں چلتے۔ تحقیق چلتی ہے۔ جتنے بھی فلٹر لگا لیں۔ ایک ایپ سے اتر آتے ہیں۔ پھر نہ کوئی بیانیہ پنپ سکتا ہے نہ مصنوعی تبدیلی کا نعرہ۔