Wo Batein Jo Hum Kar Na Sakey (2)
وہ باتیں، جو ہم کر نہ سکے(2)
ایک بات، جو اس شام کے میزبان نے آپ کے تعارف میں نہیں بتائی تھی، مگر وکی پیڈیا نے بتا دی وہ یہ تھی کہ آپ 2007 میں پنجاب کابینہ میں نگران وزیر بھی رہ چکی ہیں۔ میری یاداشت میں یہ وہی سازشوں سے بھرا دور تھا، جب پہلا این او آر دیا گیا تھا، بے نظیر کو مروا دیا گیا تھا اور پنجاب حکومت نون لیگ کو بخش دی گئی تھی اور اگلے دس سالوں تک ملک کو اندھیروں میں دھکیل دیا گیا تھا۔
آپ ان فیصلہ ساز لمحوں میں پاکستان کی تاریخ کا عملی حصہ تھیں۔ یعنی قدرت نے قوم کی تربیت کا تیسرا سنہری موقعہ بھی، آپ کی جھولی میں ڈالا تھا، اس کے باوجود اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد آپ ہم جیسے عام پاکستانیوں کے ساتھ مل کر اس نظام پر انگلی اٹھارہی ہیں۔ جس کو سدھارنے کے آپ کے پاس ایک نہیں تین تین مواقع تھے۔
یہی سوال جب آپ سے اسی ہال میں پوچھا گیا کہ آپ کس کو نوجوان نسل کی تربیت کی خرابی کا الزام دیں گی، گھر کو، سکول کو یا ریاست کو؟ تو آپ کے پاس جواب میں وہی میٹھے میٹھے طنزیہ جملے اور الفاظ کی جگالی تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ اصل میں، ہم خود ہی اپنے نوجوانوں کے گنہگار ہیں، نہیں میڈم، ہم آپ کے عہدوں کے، عزتوں کے، مرتبوں کے، تنخواہوں کے حصے دار نہیں تھے۔
اس لئے ہم اس بوجھ کے حصہ دار بھی نہیں بنیں گے۔ یہ آپ کی ذمہ داری تھی جو آپ نے نہیں نبھائی اور ان آرمی آفیسرز کی طرح جو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد جنگوں کی شکست کے اسباب لکھتے ہیں تو اپنا دامن صاف بچا جاتے ہیں، آپ بھی اپنا آپ صاف بچا گئی ہیں۔ محترمہ سیدہ صاحبہ، آپ نے مولانا طارق جمیل کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ وہ حوروں کا قد ناپ آئے ہیں۔
اور ساتھ ہمیں یہ بھی بتایا کہ ان کی ملبوسات کی دکان پر ازار بند ساڑھے پانچ سو کا ہے، اور اس مہنگے ازار بند کی وجہ سے غریب اب خود کشی بھی نہیں کر سکے گا۔ کیونکہ بچارے غریب کو تو اس کا یہی مصرف پتہ تھا اور جب یہی اتنا مہنگا ہو جائے گا تو وہ بد بخت اب مرے گا کیسے۔ میرے لئے تو یہ بھی ایک انکشاف تھا کہ غریب ازار بند کو صرف مرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔
ڈاکٹر عارفہ صاحبہ، سامعین و ناظرین کے مختلف سوالوں کے جوابات میں آپ یہ کہتی رہیں کہ" میں کوئی کلیہ نہیں بناتی، میرے نزدیک تو آپ کا یہ کہنا ہی ایک کلیہ ہے۔ تھوڑی آگے چل کر آپ فرماتی ہیں کہ" مرد محبت کر ہی نہیں سکتا ہے۔ اس کو یقینا کلیہ نہیں تھاکہا جائے گا؟ میں اس خوف سے کہ بھرم کا آخری پردہ بھی نہ چاک ہو جائے، آپ سے ڈرتے ڈرتے پوچھ بیٹھی کہ " وہ اوورسیز پاکستانیوں کو کس نظر سے دیکھتی ہیں۔
جب کہ اب تو ہمیں فارن ایجنٹ بھی کہا جا رہا ہے اور دوسرا کہ پاکستان کی بہتری کے لئے تارکین وطن کو کیا کردار ادا کرنا چاہیئے؟ آپ نے میرے سوال کے دوسرے حصے کو مکمل طور پرنظر انداز کرتے ہوئے پہلے کا یہ جواب دیا کہ" آپ لوگوں کا پیسہ بڑا اچھلتا ہے اور آپ وہ پیسہ بھیج کر ہم پر بہت ظلم کرتے ہیں۔ خدا کے واسطے وہاں پیسہ نہ بھیجیں۔ آپ کے پیسے نے پاکستان میں بت بنا دئیے ہیں۔
آپ کے اس جواب کو میں کسی ماہر معاشیات کی صوابدید پر چھوڑتی ہوں، کیونکہ میری تربیت نے ایسے احمقانہ اور متعصب جواب پر مجھے شائستہ انداز میں جواب دینا سکھایا ہی نہیں اور میری برداشت ختم ہو نے کا الزام بھی عمران خان کے سر نہ جائے، اس لئے میں یہاں خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دوں گی۔ محترمہ، آپ ہی کی بتائی گئی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے۔
جس کا ریفرنس آپ نے سورہ بقرہ سے دیا تھا کہ" خدا نے ہمیں قوتِ تمیز عطا کی ہے اور اگر معاشرہ اسے پنپنے نہیں دے گا، اس لئے نوجوانوں سے ناراض ہونے کی گنجائش نہیں میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ آپ کی اس بات سے وہاں بیٹھے ہوئے اکثر انسانوں کا دل بہت خراب ہوا ہے۔ جو نوجوان تو نہیں مگر اتنے بوڑھے بھی نہیں کہ ابھی وہ اپنی پینشن اور موٹیوشنل تقریروں سے اپنا گزارا اور لوگوں کا دل لبھا سکیں۔
کیونکہ ان انسانوں کا پیسہ اچھلتا نہیں بلکہ بڑی محنت سے کمایا ہوا ہوتا ہے۔ وہ، جب یہ پیسہ، پاکستان اپنے رشتہ داروں، یا دوستوں یا کسی امدادی کام کے لئے بھیجتے ہیں تو یہاں انہیں اپنی کتنی ضرورتوں کو مارنا پڑتا ہے اور جن کے پاس ضرورت سے زیادہ پیسہ ہوتا ہے، وہ بھی اس لئے نہیں ہوتا کہ انہیں کسی سے وفاداری کا یا خوشامد کا یا کسی ایجنڈے کو پروموٹ کرنے کا انعام مل رہا ہوتا ہے۔
وہ بھی ان کی خون پسینے کی کمائی ہوتی ہے۔ جس کو وہ پاکستان اس امید پر بھیجتے ہیں کہ وہاں کی میعشت کا پہیہ کبھی نہ رکے، آپ نے کہا تربیت کے معنی" اپنے آپ کو پہچاننے " میں ہے۔ اسی کا مشورہ میں آپ کو دوں گی، آپ خدارا، خود کو پہچانئے کہ آپ کون ہیں؟ آپ کو قدرت نے زندگی میں نبھانے کو اہم کردار دئیے، آپ نے کس کے ساتھ انصاف کیا؟ آج آپ جو بھی شگفتہ شگفتہ باتیں کر رہی ہیں یہ ملک تو آپ کو اس کا بھی پے بیک کر رہا ہے۔
آپ آج تک اس ملک سے لیتی رہی ہیں حالانکہ آپ نے بتایا کہ پچاس سال پہلے آپ نے ملک نہ چھوڑنے کا جو شعوری فیصلہ کیا تھا۔ وہ ملک کا قرض چکانے کے لئے کیا تھا تو کیا اب آپ یہ تسلیم کرلیں گی کہ آپ ملک کا قرض نہیں اتار سکیں بلکہ یہ ملک ہی آپ کوبے تحاشا اور مسلسل دیتا جا رہا ہے۔ آپ کے پاس میرے ملک کو دینے کے لئے صرف دہائی توبچی ہے۔
کہ ہائے ہائے نقصان ہو گیا۔ کس نے کیا؟ اور اس کو ٹھیک کیسے کرنا ہے، اس کا جواب ابھی تک آپ کے پاس نہیں ہے۔ پھر بھی ہم بھگوڑے اور ہم ملک کی خرابی کا باعث بھی ہم یعنی اوور سیز پاکستانی۔ ہمارے سوال ادھورے رہ گئے تھے۔ کیونکہ مہمان کا احترام ہم پر واجب تھا شاید ہم بھی محترمہ کے کسی کالج کے تربیت یافتہ ہوتے تو میٹھی زبان میں بول کر جواب طلب کرتے رہتے۔
اس وقت تک جب تک وہ زِچ نہ ہو جاتیں، مگر ہم کیا کریں ہم اوور سیز پاکستانیوں کو یہ آزادی بالکل نہیں ہے کہ ہم پاکستان کے معاملات میں بول سکیں کیونکہ ہم نے پاکستان کا قرض چکانے کے لئے پاکستان میں رہ کر اسے لوٹنے کو ترجیح دینے کی بجائے ہجرت کی خواری اور کر ب جھیلے اور اپنے آبائی وطن کو حسین بنانے کے لئے نہ صرف خواب دیکھے، بلکہ اس کی تعبیر کے لئے آج تک اس سے کچھ مانگے بغیر اپنا حصہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ہم ہیں اوور سیز پاکستانی۔