Thursday, 09 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Rubina Faisal/
  4. Wo Batein Jo Hum Kar Na Sakey (1)

Wo Batein Jo Hum Kar Na Sakey (1)

وہ باتیں، جو ہم کر نہ سکے(1)

خوش قسمتی کہیے یا بدقسمتی کہ اسی زندگی میں آنکھوں پر پڑے سب پردے ایک ایک کر کے اتر رہے ہیں۔ اور ہر پردے کے بعد سوچتے ہیں یہ شاید آخری ہو مگر نہیں جی۔ محترمہ عارفہ سیدہ صاحبہ ایک مہربان دوست نے ہمیں اس محفل میں مدعو کر لیا۔ جس کے شاید ہم قابل نہیں تھے کیونکہ آپ جیسی عالم فاضل شخصیت جو دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پرشہرت کی بلندیوں کو چھونے لگی ہیں۔

اس تقریب کی مہمان خصوصی تھیں۔ میزبان نے آپ کا مکمل تعارف کرایا۔ جس سے ہمیں پتہ چلا کہ آپ سات زبانوں کی ماہر، ہیومن رائٹس کی چیمپئن، حق اور سچ بات کہنے اور سننے کی ہمت رکھنے والی خاتون اور بہت زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ آپ لاہور کالج کی پرنسپل بھی رہ چکی ہیں۔ آ پ پوڈیم پر تشریف لائیں اور آتے ہی کہا میں تو بس پاکستان کی ایک معمولی سی شہری ہوں اور جو بھی میرا تعارف کرایا گیا ہے یہ کسی کا بھی ہو سکتا ہے۔

آپ کی کسی اور بات سے میں اتفاق کروں یا نہ کروں لیکن آپ کے لیکچر کے اختتام تک میں آپ کی اس بات سے سوفیصدی متفق ہو چکی تھی۔ کیوں، آپ بھی دیکھئے۔ جس پہلی چیز نے آپ کے اس "معمولی " ہونے والی بات کی تائید کی وہ یہ تھی کہ بچارے میزبان نے انتہائی عزت و احترام سے آپ کے لئے ایک شاندار سی کرسی سٹیج پر سجا رکھی تھی۔

مگر آپ نے بغیر کوئی مناسب وجہ بتائے بس وہاں بیٹھنے سے انکار کر دیا، جس کی وجہ سے وہاں پہلے سے نصب شدہ مائیک وغیرہ ہٹانا پڑے اور ان کو اس پوڈیم پر لگایا گیا۔ جن کے پیچھے جا کر آپ خود ہی کھڑی ہو گئی تھیں۔ پھر میزبان نے مودبانہ درخواست کی کہ اگر ایسے ہی کرنا ہے تو کم از کم مجھے باقاعدہ تعارف تو کروا لینے دیں۔ جسے آپ نے بادل نخواستہ قبول کیا۔

اس سب ادل بدل کی وجہ سے فنکشن شروع ہونے میں مزید تاخیر ہوئی، اور وہ "اوور سیز پاکستانی "جو جمعہ والے دن کام کاج سے جلدی نکل کر وہاں وقت پرپہنچے ہوئے تھے۔ ان کے لئے انتہائی کوفت کا باعث بنی مگر اتنی شگفتہ اور شائستہ مہمان کو سننے کی خوشی میں وہ یہ کوفت بھول بیٹھے۔ پھر جب آپ کے تفصیلی تعارف والا مرحلہ طے ہو گیا تو آپ کمال پھرتی سے پو ڈیم پر دوبارہ تشریف لائیں۔

اور خود کو" معمولی انسان "کہتے ہوئے بڑی "رعونت" سے بولیں" وہ صاحب جو مجھے لائے ہیں، مجھے ان کا نام نہیں پتہ" یہ بات سنتے ہی میں چونک گئی، یہ بات کسی اور کے لئے معمولی ہو سکتی ہے میرے لئے نہیں، کیونکہ میں نے تو آج تک یہی پڑھا اور سیکھا ہے کہ جو آپ کو بغیر کسی مادی غرض کے عزت دے، آپ پر احسان کرے، آپ اس کو ہمیشہ یاد رکھیں۔

ذرا سوچیے، جو شخص آپ کو لینے اتنی دور گیا۔ جس کے ساتھ آپ نے کوئی گھنٹہ یا آدھے گھنٹے کا سفر طے کیا، جو آپ کو عزت و احترام کے ساتھ ہال کمرے کے اندر لے کر آیا۔ جس نے بقول آپ کی "پذیرائی "کے لئے یہ سب کیا ورنہ تو آپ خود بھی آسکتی تھیں، آپ نے اس انسان کا نام تک جاننے کی کوشش نہیں کی؟ وہ انسان تھا یا کوئی نمبر تھا؟ پھر آپ نے میٹھی میٹھی تذلیل کے بعد اس کاہلکا سا شکریہ بھی ادا کردیا، جو میرے نزدیک ایک بے معنی بات ہو کر رہ گئی تھی۔

میزبان کے آپ سے کئے گئے سوال کہ" ہمارے ہاں تعلیم تو ہے تربیت کہاں ہے" کا جواب مجھے آپ کی باتوں اور انداز سے فوری مل بھی گیا۔ مگر آخر تک بیٹھنا آدابِ مہمانی تھے سو ہم بیٹھے۔ آپ نے، خود کو نوجوانوں کا وکیل کہتے ہوتے فرمایا" ان کی نسل اور ان کے بعدکی نسل (یعنی ان کے طالبعلموں کی نسل) آج کے نوجوانوں کی بر بادی کی ذمہ دارہے کیونکہ ان بچوں نے تو وہی کیا جو ان کو کرنے کا کہا گیا۔

آپ کے اس فارمولے کو لے کر آگے چلیں تو ہر دو صورتوں میں آپ خود ہی نوجوانوں کی اخلاقیات کی بربادی کی ذمہ دار نکلتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ ایجوکشینسٹ رہ چکی ہیں، استاد رہ چکی ہیں۔ لاہور کے بہترین کالجز کی استاد اور پرنسپل رہ چکی ہیں اور پھر آ پ کی تعلیم و تربیت سے مستفید ہو کر ہم جیسی لاکھوں لڑکیاں مائیں بنیں اور آگے سے انہوں نے وہ نوجوان نسلیں تیار کیں۔

جن کے بارے میں اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ان کی تربیت خراب ہے۔ یعنی خدا نے آپ کو تربیت کرنے کے دو مقامات کے کنڑول کا موقع دیا اور آپ اس پر ڈٹ کر بیٹھی اپنی تنخواہ تو لیتی رہیں، مگر ریٹائرمنٹ کے بعد اب آ پ بچوں کی خرابی تربیت کا ذمہ دار کسی ان دیکھی طاقت کو ٹھہرا رہی ہیں؟ لیکچر کے آغاز میں ہی آپ نے فرمایا کہ کسی کا مکتوب تو ایک مقدس چیز ہوتی ہے۔ اسے ایک" صاحب"نے لہرا لہرا کر اس کی بے حرمتی کر دی ہے۔

کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ان صاحب کی تربیت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ چور کوچور کہتا ہے اماں نے تربیت ٹھیک نہیں کی۔ پھرفرمایا کہ" تکرار صرف اقتدار کی ہے۔ تربیت ہو گی تو مہلت دیں گے، آپ نے اشاروں ہی اشاروں میں فرمایا کہ سیاست کے معنی معاشرے اور ریاست کی خدمت کرنا ہوتی ہے۔ سیاسی زندگی گزارنے کے لئے سنجیدہ تربیت چاہیئے۔

ہم آپ کی لچھے دار گفتگو سے اشارے سمجھ ہی رہے تھے کہ خود ہی فرما دیا ہمارے وزیرِ اعظم اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اب والے نہیں، اس سے پہلے والے تو بات اشارے کنایوں سے نکل کر ذاتی حملے میں داخل ہو گئی اس کے بعد کچھ ابہام باقی نہ بچا۔ آپ نے اس لیکچر میں چوری پر بڑی تفصیلی گفتگو کی مگر کسی کا نام نہیں لیا، عمران خان نے چوری کی ہوتی تو یقینا یہاں بھی نام لے کر بات ہوتی۔

چونکہ ایسا کچھ ہے نہیں تو یہاں آپ کی تربیت نے یہ فیصلہ کیا کہ اب کسی چور کا نام نہ لیا جائے کیونکہ یہ بد تہذیبی ہوجائے گی اور ذاتی حملے کوئی اچھی بات تھوڑی ہے۔ بس آپ نے اپنی تقریر کے بالکل آخر میں نواز شریف کے بارے میں فرمایا کہ" اب وہ محترم پاکستان منہ اٹھا کر یا پیٹ اٹھا کر نہ جانے کیوں آرہے ہیں، تو آپ کا یہ انداز دیکھ اور سن کر پوچھنا یہ تھا کہ اگر یہ بات آج کا نوجوان اسی طرح دہرائے گا تو کیا اس کا الزام بھی عمران خان کے سر جائے گا؟

Check Also

Chacha Khuwa Makhuwa

By Nusrat Javed