Muhammad Ali Jinnah Aur Aaj Ka Naujawan
محمد علی جناح اور پاکستان کا آج کا نوجوان
تاریخ کو ایک رخ سے پڑھو تو اسے تعصب ہی کہتے ہیں۔ مجھے ہوش سنبھالتے ہی لبرلز کی طرف سے مطالعہ پاکستانی اور چیپ پیٹروٹیزم کے طعنے سننے کو ملے تو میں نے اسے انا کا مسئلہ نہیں بنایا بلکہ ایسا کہنے والوں کی عینک لگا کر پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیا۔ وہ کتابیں بھی پڑھ لیں جو پاکستان اور قائد اعظم کی مخالفت میں لکھی گئی تھیں۔ مگر روشن خیالوں کی نظر میں میری نظر کمزور ہی رہی اور میری حب الوطنی سستی ہی رہی۔
میں اس بات پر قائل نہیں ہو سکی کہ سیاست میں مذہب قائد اعظم لائے تھے، میں قائل نہیں ہو سکی کہ تقسیم کے وقت کی خونریزی کے ذمہ دار قائد تھے، میں قائل نہیں ہو سکی کہ پاکستان کے بننے کا مطالبہ قائد اعظم کی "ڈھٹائی" تھی۔۔ ان سب سوالوں کے جواب دلائل سے دینے کے لئے مجھے کئی غیر مسلم تاریخ دانوں کی کتابیں کھولنی پڑتی تھیں۔۔ مجھے صفحہ صفحہ بھٹکنا پڑتا تھا۔۔ اور پھر۔۔ ایک کتاب مجھ سے آٹکرائی، بھیجنے والے عالم فاضل دوست کے پیغام کے ساتھ کہ، "لو اب تو خوش ہو جاؤ تمہارے حصے کا کام ایک بلوچ جوان نے کردیا ہے"۔
کتاب، "ملزم جناح حاضر ہو"۔ مصنف عماد بزدار۔۔
یہ کتاب میرے لئے ایک خوشگوار حیرت لئے ہو ئی تھی۔۔ یہ وہ کام تھا جو میں خود ایک طویل عرصے سے کرنا چاہ رہی تھی۔ میں نے جب سے چند علیحدگی پسند بلوچوں کو قائد اعظم محمد علی جناح کے خلاف زہر اگلتے سنا تھا تب سے اسی تشویش میں مبتلا رہتی تھی کہ نجانے ہمارے سول و ملٹری حکمرانوں کی جعلی انا اور اصلی نالائقی کی وجہ سے بلوچ جوان نسل بھی ہم سے، پاکستان کے نظریے سے اور قائدسے اتنی دور نہ چلے جائے کہ ہم ایک دفعہ پھر سے ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ ایسے وقت میں ایک بلوچ کی قائد اعظم سے ایسی عقیدت اور محبت نے میرے اندر امید کی ایک کرن جگائی۔
"ملزم جناح حاضر ہو"۔۔ اس پر اپیگنڈہ دور میں وقت کی اہم ضرورت ہے۔ خاص طو ر پر ایسی کتاب پاکستانی نوجوان نسل کے لئے بہت ضروری ہے۔ ہماری پاکستانی قوم کی ایک ٹریجڈی یہ ہے کہ ہم سنسنی خیزی کو اور پھکڑ بازی کو بہت زیادہ پسند کر تے ہیں۔
سنجیدہ مطالعہ کر نے والا اور دلائل کے ساتھ جواب دینے والا مزاج دن بدن زوال پذیر ہوتا جارہا ہے۔ ایسے حالات میں اتنا سنجیدہ اور غیر جانبدارنہ تحقیقی کام کر نا قابلِ تحسین اور قابلِ تقلید ہے۔
میں اس کتاب کو ان سب لوگوں کے لئے، بالخصوص نوجوانوں کے لئے ایک حلوہ کہوں گی۔۔ جو عماد بزدار نے پکا کر سب کے سامنے رکھ دیا ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ بس اب اسے کھانا ہے۔۔ لیکن کیا ہمارے پاس اس کو کھانے کا بھی وقت ہے؟ یہ سوال ہمیں خود سے پوچھنا ہے۔۔
عماد نے قائد کی ذات پر لگنے والے ہر الزام کو اس کتاب میں شامل کیا اور پھر ان کے مدلل اور مستند، غیر جانبدار مورخوں کے تاریخی حوالوں کے ساتھ جوابات دئیے ہیں۔
اس کتاب میں عماد نے ایک ایسے وکیل کا کردار ادا کیا ہے جو ایک ایسے شخص کا کیس لڑتا ہے جس کے پیچھے دنیا کے طاقتور اور منظم لوگ لگے رہے، اور وہ کمزور تن تنہا اپنے لوگوں کے حق کے لئے ان کے سامنے ڈٹا رہا، اور اس کی سزا کے طور پر آج بھی اس کے خلاف منفی پرا پیگنڈا رکنے میں نہیں آرہا۔ ایسے کیس کو لڑنے کی نہ تو عماد بزدار کو کوئی فیس ملنی ہے اور نہ ہی پاکستان جیسے ملک میں کوئی تعریفی سند، کوئی ایوارڈ یا کوئی اکنالجمینٹ ہی ہوگی۔۔ مگر پھر بھی وہ کر گزرا ہے۔
میں بس یہی کہوں گی کہ"ملزم جناح حاضر ہو" جناح سے محبت کرنے والوں اور ان کے خلاف بغض رکھنے والوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر مگر پڑھنی دونوں کوچاہیئے۔
یہ کتاب نہ صرف قائد اعظم کا بلکہ ہر اس انسان کا مقدمہ ہے جو اپنے لوگوں کے لئے بے غرض ہو کر مکمل اخلاص کے ساتھ کچھ کرنا چاہتا ہے مگر اس کی ذات کو الزامات لگا لگا کر چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ یہ کام ہوا کے مخالف سمت میں اڑنے جیسا ہو تا ہے۔ اس میں بہت طاقت لگتی ہے کیونکہ اس میں مخالفین کی مخالفت تو ہوتی ہے، ساتھ میں حمایتیوں کی ناقدری کا بوجھ بھی کندھوں پر اٹھانا پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے میں یا مجھ جیسے پاکستان اور قائد اعظم کی محبت میں ڈوبے لو گ اس کتاب کی جیسی پزیرائی دیکھنا چاہتے ہیں، وہ ابھی نظر نہیں آرہی ہے۔ گو کہ اس کا پہلا ایڈیشن بک چکا ہے لیکن میں چاہتی ہوں کہ بات دوسرے ایڈیشن تک نہ رکی رہے۔ اس کتاب کے بے شمار ایڈیشن نکلنے چاہئیں۔
ایسے مصنفین جو اپنے شوق اور جذبے کی وجہ سے ایسے کٹھن کام کر گذرتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی ہو نی چاہیئے تاکہ وہ آگے بھی ایسے کام کر نے کے لئے اپنے آپ کو ترو تازہ رکھ سکیں۔ ہمیں پاکستان اور قائد اعظم کے نظرئیے کے ساتھ کھڑے ہوئے ایسے بے غرض اور بے لوث تاریخ دانوں، محقیقین کی اشد ضرورت ہے جو تاریخ کو تعصب سے پاک ہو کر لکھیں۔ ورنہ ہم اپنی نئی نسل کوکبھی امریکہ والے حسین حقانی، کبھی سویڈن والے اشتیاق اور کبھی کینیڈا والے طارق فتح کی متعصب اور پاکستان کے لئے نفرت سے بھری عینک سے دیکھنے کے لئے لا وارث چھوڑ دیں گے۔۔
ہم، متعصبانہ نظریات کے بھیڑیوں کے آگے کچے ذہنوں کو چیرنے پھاڑنے اور اپنے مطلب کا بھوسہ بھر نے کو نہیں چھوڑ سکتے۔ اس لئے ہمیں"ملزم جناح حاضر ہو" جیسی کتابوں کی ضرورت دنیا کے ہر اس ملک میں ہے جہاں جہاں پاکستان کی تاریخ کوپڑھنے والے لوگ موجود ہیں۔
ہم عماد بزدارکے شکریہ کے لئے یہی کر سکتے ہیں کہ اس کی کتاب کو اپنی لائبریری کی زینت بھی بنائیں اور دوست احباب کو بھی اس کے متعلق بتائیں۔ اس کتاب کو یقینی طور پر پاکستان کے تمام سکول کالجز اور یو نیورسٹیز کی لائبیریریز میں ہونا چاہیئے، کوئی دوست اگر اس سلسلے میں راہنمائی کر سکے تو بہت خوشی کی بات ہوگی۔