Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rubina Faisal
  4. Asaab Pe Aurat Hai Sawar

Asaab Pe Aurat Hai Sawar

اعصاب پہ عورت ہے سوار

چند سالوں پہلے، ایک گوری لیڈی کونسلر سے، میری ٹم ہارٹنز (کافی شاپ) پر تفصیلی ملاقات ہو ئی۔ وہ نئی نئی کونسلر منتخب ہو ئی تھیں اور ان کے ذہن میں الیکشن کمپین کی یادیں تازہ تھیں۔

جس مسئلے کے لئے میں نے ان سے ملنا تھا، اس پر بات ختم ہوئی تووہ مجھ سے کہنے لگیں، ایک بات تو بتاؤ پاکستان کی عورتیں اپنا ووٹ اپنی مرضی سے کیوں نہیں کاسٹ کرتی ہیں؟ میں نے حسب معمول سورما بنتے ہو ئے کہا آپ کو غلط لگا ہے ہم تو اپنی مرضی سے ہی کرتی ہیں۔

وہ بڑے مہذبانہ انداز میں بولی، اچھا پھر شائید میرا تجربہ مختلف ہو رہا ہوگا کیونکہ مجھے الیکشن کمپین میں جن عورتوں کی طرف سے اپنے لئے ووٹ کے جواب میں یہ سننا پڑتا تھا کہ ہم اپنے شوہر سے پوچھ کر بتائیں گی، ان کا تعلق زیادہ تر پاکستان سے ہی ہو تا تھا۔

تو میں نے مسکرا کر کہا، "تو یہی تو ہماری مرضی ہوتی ہے"۔ وہ جو میری چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی بڑے بڑے قہقہے لگا رہی تھی، اس بات پر بجھ کر رہ گئی۔

میں نے اسے ہنسنانے کی کوشش جاری رکھتے ہو ئے کہا، جو عورتیں خود فیصلے کرنے لگ جائیں انہیں ہماری سوسائٹی کچھ خاص اچھی نظر سے نہیں دیکھتی ہے۔ ہاں ہماری عورتیں بہت پڑھ لکھ گئی ہیں۔۔ پھر بھی انہیں خود اچھا لگتا ہے کہ ان کے فیصلے ان کے مرد ہی کریں۔

وہ پھر بھی نہ مسکرائی اور افسردگی سے بولی، " تو پھر تو جسے تم اپنی مرضی کہہ رہی ہو وہ اصل میں ایسے ہی تمہارے اندر فیڈ ہے۔۔ "

اب میرے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو نے کی باری تھی۔۔

اس کے بعد میں سارا دن یہی سوچتی رہی ہمیں تو پتہ بھی نہیں ہو تاکہ ہماری مرضی ہے کیا۔ یہ سچ ہے کہ ہماری سائکی میں غیر محسوس طریقے سے یہ شامل ہو جاتا ہے کہ ہم اکیلے فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں۔

میں کوئی روایتی فیمینسٹ نہیں ہوں، ایک ہیومنسٹ ہوں۔ میں جنس کی تفریق سے بالاتر ہو کر سوچتی ہوں کیونکہ میری ماں نے ہمیشہ یہی سکھایا ہے کہ اصل فیمینزم یہ ہے کہ عورت خود کو محض شو پیس نہ سمجھے بلکہ مردوں کی طرح ہی خود کو ایک محنت کرنے والا انسان جانے اور کسی مرد کو بھی خلائی مخلوق نہیں بس ایک انسان ہی سمجھے۔ نہ عورت ہو نے کا نقصان اٹھایا جائے اور نہ ہی فائدہ۔ ایسی تربیت نے میرے اندر عزت نفس اور سوچ میں آزادی رکھ دی ہے۔

لیکن کیا کیا جائے کہ سارے معاشرے کی تربیت کرنے والی میری ماں نہیں تھی۔۔ یہاں بار بار آپ کو گھسیٹ کر اس مقام پر لایا جاتا ہے، جہاں لفظ"عورت" کسی دوسرے سیارے کی مخلوق محسوس ہونے لگتا ہے۔ قدم قدم پر آپ کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ "آپ عورت ہیں تو آپ سوچ نہیں سکتیں یا اگر سوچ سکتی ہیں تو وہ کیوں نہیں سوچتیں جو ہم کہہ رہے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے توآپ ایک اچھی عورت نہیں ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ بری عورت ہیں مگر آپ اچھی بھی نہیں ہیں"۔

ایسی باتیں مختلف انداز سے آپ کے کانوں تک پہنچتی رہتی ہیں اور ایک بچی کو ایک عورت بننے تک ہراساں کئے رکھتی ہیں۔ اور انتہا تو تب ہوتی ہے جب کوئی اہل قلم اسے الفاظ کا روپ دے دے۔ ایک ایسا ہی کالم نگار ہے جس کے کالم کا نام تکیبر کی بجائے تبخیرِ مسلسل ہونا چاہیئے۔ وہ حضرت، پی ٹی آئی کی ضمنی انتحابات میں کامیابی کے اسباب بیان کرتے ہو ئے پہلا سبب، نوجوانوں کو ٹھہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ، چونکہ ہم نے ان کی ٹریننگ ٹھیک سے نہیں کی اسی لئے وہ جمہوریت کا مطلب نہیں سمجھتے اور اسی وجہ سے ہمارے ہاتھوں سے نکل کرپاپولر سیاست کا شکار ہو گئے ہیں۔

اِس کالم نگار کو ووٹوں سے جیتنے والی اس وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی ایک غیر جمہوری اور غیر آئینی پارٹی لگ رہی ہے اور اس کی حمایت کرنے والے نوجوان جمہوریت اور آئین سے نابلد ہیں۔

نوجوانوں کو مرد و زن کی تحصیص کے بغیر بے شعور قرار دینے کے بعد ان کا رخ روشن پاکستان کی پچاس فیصد آبادی یعنی خواتین کی طرف مڑتا ہے، وہاں بھی وہی اندھیر نگری مچی ہوئی ہے، نوے فی صد اعلانیہ اور باقی دس فی صد غیر اعلانیہ سب خواتین عمران خان کی حمایتی ہیں۔ جن کے بارے میں وہ فرماتے ہیں کہ ان کو نہ تو رجیم چینج کا پتہ ہے اور نہ ہی انہیں اندازہ ہے کہ ریاستی ادارے کس چڑیا کا نام ہیں؟ یہ کہہ کر انہوں نے سو فی صدی خواتین کو سیاست میں مکمل نااہل اور جاہل قرار دے دیا اور ساتھ ہی وہ اس بات پر اظہارِ افسوس فرماتے ہیں کہ چونکہ ہمارے ہاں تحقیق کا ماحول نہیں ہے ورنہ اس بات پر ضرور تحقیق کروائی جاتی کہ عمران خان کو اس قدر نسوانی حمایت کیوں حاصل ہے (اس کے در پردہ ان کا حسد بھی بول رہا تھا کیونکہ محترم کالم نگار کو تو اپنے گھر کی خواتین ہی کی حمایت نہیں حاصل)۔

اگر یہ حضرت کسرِ نفسی سے کام نہ لیں تو یہ جان سکتے ہیں کہ "عمران خان کو نسوانی حمایت کیوں حاصل ہے" جیسے گھیمبیر نفسیاتی اور سماجی اور علمی موضوع پر تحقیق کے لئے کسی خاص ماحول یا بڑے ادارے کی محتاجی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کام کے لئے ان کا اپنا گھرانہ ہی کافی ہوگا۔۔ مگر منکسر المزاج لوگوں کو ہمیشہ "چراغ تلے اندھیرا ہی نظر آتا ہے" یا "بچی بغل میں ڈھنڈورا شہر میں"، والا حال ہوتا ہے۔۔ یہی تو درویشی اور عاجزی کی معراج ہے۔

تیسرا سبب وہ خان صاحب کی جرات مندانہ اور جارحانہ سیاست کو قرار دیتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے ریاستی اداروں کو للکارا ہے اس نے ان کی مقبولیت کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ یہ چونکہ آخری پیرا گراف تھا اس لئے یہاں تک پہنچتے پہنچتے وہ یہ بھول گئے کہ شروع میں انہوں نے لکھا تھا کہ ہمارا نوجوان اس لئے خان صاحب کے ساتھ ہے کیونکہ اسے جمہوریت اور آئین کا کچھ پتہ نہیں ہے۔ پھر اگلے ہی لمحے ان کے سر پر کوئی ڈنڈا بجا اور یاداشت لوٹ آئی تو خیال آیا ووٹ کو عزت دو کا بیانئیہ تو باؤ جی اور ان کی صاحبزادی کی جاگیر ہے جو انہوں نے پچاس روپے کے مچلکے پر ضمانت کروا کر نہایت جانفشانی سے تیار کیا تھا۔ اس غلطی کا احساس ہو تے ہی محترم کالم نگار نے خان صاحب کی جمہوریت کے لئے دلیرانہ للکار کو بدتمیزی اور باؤ جی کی منمناہٹ کو بھگوڑی جرات قرار دیا اور ایسا قلم توڑ کالم لکھنے کے بعد اب وہ سوچ رہے ہو ں گے کہ میں کہنا کیا چاہتا تھا اور کہہ کیا گیا ہو۔

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں، پی ٹی آئی کی فتح کے تین اسباب، (جن میں دو گھٹیا ترین اور ایک میں، سچ بتا کر یو ٹرن لے لیا) لکھنے والا، یہ کالم نگار خود تحقیق کے لئے بہترین سبجیکٹ ہے۔ نوجوانوں اور خواتین کو چاہیئے کہ اپنے شعور کو بہتر بنانے کے لئے اس قسم کے الجھے ہوئے کرداروں کا مطالعہ کریں جو اہل قلم کہلائے جاتے ہیں اور جو اپنا کام نوجوانوں اور خواتین میں شعور پیدا کرنا سمجھتے ہیں مگر افسوس وہ دونوں ان کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں اور رجیم چینج اور ریاستی اداروں کا مفہوم سمجھنے کے لئے ایک کھلاڑی ایک اناڑی کی طرف دیکھ رہے ہیں اور یہ بچارے دانشور سوچ رہے ہیں کہ کیا ہمارے کالم بس کاغذ سیاہ کر رہے ہیں اور اس کاغذ کا واحد مصرف یہی رہ گیا ہے کہ یہ بہکے ہوئے نوجوان اور خواتین خان کے جلسوں میں ان کے اوپر پکوڑے رکھ کر کھائیں۔

خان صاحب کی خواتین میں مقبولیت کے راز میں ان لوگوں کے لئے ایک پیغام ہے جو عورتوں سے انسیکیور ہو کر انہیں عورت پن کے کمپلیکس میں مبتلا کرتے نظر آتے ہیں۔

میرا ذاتی تجر بہ ہے جب خان صاحب سے بات کرو تو وہ آپ کو خاتون سمجھ کر اپنی باتوں سے، اپنی آنکھوں سے ہراس نہیں کرتے بلکہ ان کی نظروں میں حیا کی جھلک اور احترام ہوتا ہے۔ وہ قابلیت کی بنا پر انسانوں کو مرد و زن کی تحصیص کے بغیر پر کھ رہے ہو تے ہیں۔ یہ راز ہے ان کی خواتین میں مقبولیت کا۔

مسلسل تبخیر والے صاحب اور اس سوچ رکھنے والے باقی سب مردوں کو بھی یہ پتہ ہونا چاہیئے کہ آج کی پڑھی لکھی اور باشعور عورتیں کبھی اس مرد کو دل سے پسند نہیں کر تیں جو انہیں مہنگے تحائف اور فیورز کی آفر ز کے ذریعے انہیں خریدنے کی کوشش کریں۔۔ اگر کوئی عورت ان آفرز کو قبول کر رہی ہوتی ہے تو وہ بزنس ہی کر رہی ہوتی ہے، اس میں کبھی بھی وہ عقیدت یا محبت کا عنصر شامل نہیں ہو سکتا جو اس مرد کے لئے ہوتا ہے جو انہیں احترام دیتا ہے اور ان کے اندر یہ احساس پیدا کر تا ہے کہ وہ صرف جسم نہیں بلکہ دماغ بھی ہیں۔ تو وہ جو کہتے ہیں کہ کہ خان صاحب کی مقبولیت کی وجہ عورتوں کے لئے ان کی جنسی کشش ہے تو یہ عورتوں کی نفسیات کے بالکل الٹ بات ہے۔ آپ عورت کی عمومی نفسیات کو اپنے ارد گرد موجود عورتوں کی نفسیات کو بنیاد بنا کر ڈیفائن نہیں کر سکتے ہیں۔

قائد اعظم بھی خواتین میں اس لئے مقبول تھے کہ وہ انہیں عورت نہیں انسان سمجھ کر بات کرتے تھے۔ اس سے عورتوں میں اعتماد پیدا ہوتا تھا اور اسی لئے ان کی تحریک میں عورتوں نے بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا تھا۔ ان کی آواز پر سب سے پہلے لبیک کہنے والی عورتیں ہی ہوا کر تی تھیں۔۔ دیواریں پھاند کر، سیکریٹریٹ کے دروازے کھولنے والیاں کبھی یہ گمان نہیں رکھتی تھیں کہ انہیں تتلی سمجھا جا رہا ہے یا ایسی عورتیں سمجھا جا رہا ہے جو آوارہ مزاج یا بدکرادر ہیں کہ ان کے لیڈر نے انہیں اس معاشرتی جھجک اور فرق سے آزاد کر دیا تھا۔ اور وہ اپنے آپ کو تحریک کا کارکن سمجھتی تھیں۔۔ محض ایک عورت نہیں۔۔ وہ جذبہ آج کی پی ٹی آئی کی خاتون ورکر میں نظر آتا ہے کیونکہ ان کا لیڈر بھی انہیں مرد کارکنوں سے کم نہیں سمجھتا ہے۔

مگر بڑے کینوس پر دیکھیں تو ہمارے معاشرے کو اس خورشیدی خمیر اور تبخیر نے ہائی جیک کر رکھا ہے اور اس کی آزادی کا خوف ان نام نہاد اہلِ علم کو راتوں کو سونے نہیں دیتا۔۔ کیا ہوگا اگر عورت اپنا فیصلہ خود کرنے لگ گئی؟ کیا ہوگا اگر اس نے اِس ایموشنل ابیوز اور ایسے قلمی ہراسمنٹ کوچیلنج کرنا شروع کردیا۔ کیا ہوگا اگر اس نے اپنی ذہنی گروتھ روکنے والے اس ان دیکھے ہاتھ کو کاٹنا شروع کردیا؟

یہ"کیا ہوگا" کا سوال انہیں عورتوں کو جنسی جملے کس کر انہیں ہراساں کرنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ یہ بھول جاتے ہیں عورت کے لئے عورت ہونا اس کا نہیں ان کا مسئلہ ہے جن کے اعصاب پر عورت کا جسم ہی سوار رہتا ہے۔

Check Also

Selfie Program

By Syed Mehdi Bukhari