Naya Manjan
نیا منجن
یہ تو سبھی جانتے تھے کہ گزشتہ حکومت اپنے ہی وعدوں اور دعوؤں کے بھنور میں کچھ ایسے پھنسی تھی کہ چاہ کر بھی نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ رہی سہی کسر ساڑھے تین سالہ بدترین پرفارمنس اور اپنے ہی دعوؤں کی نفی کرتی کارکردگی نے پوری کر دی۔ حکومت میں رہتے عمران خان یہ باور کر چکے تھے کہ ان کے پاس عوام میں لے جانے کو سوائے بری کارکردگی اور اپنے حقیقت سے عاری دعوؤں کے علاوہ کچھ نہیں۔
لہٰذا انہیں کچھ تو ایسا چاہیے کہ جس بناء پر وہ نہ صرف عوام کا سامنا کر سکیں بلکہ دیگر جماعتوں کو حسبِ عادت برا بھلا بھی کہتے رہیں۔ اسی تناظر میں ان کو ساڑھے تین سالوں میں بلندی سے پستی تک لے جانے والے ان کے ہونہار وزیروں کی فوج اور خوشامد میں ہمہ تن مشغول مشیروں نے انہیں امریکی سازش کا نیا منجن تیار کرکے دیا کہ جسے بیچ کر وہ عوام میں ناصرف مقبول ہوں بلکہ اگلے الیکشن تک اپنے حوالے سے قائم عوامی نظریات کو بھی یکسر تبدیل کر سکیں۔
اسی اثناء میں موجودہ مخلوط حکومت اُس وقت کی اپوزیشن نیازی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد لے کر آنے کا پلان کرنے لگی تو پہلے پہل تو عمران خان اور ان کی جماعت یہ تاثر دیتی رہی کہ ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور ادارے ان کی پشت پر کھڑے ہیں۔ بلکہ اپوزیشن کی اس تحریک کو وہ اپنے لیے خدا کا تحفہ قرار دینے لگے۔
مگر جب اپنے ہی ایم این ایز اور اتحادی جماعتوں نے تیور بدلنا شروع کیے اور محسوس ہونے لگا کہ اب گیم ہاتھ سے نکلنے والی ہے تو امریکی سازش کا ڈرامہ کچھ اس انداز سے پھیلایا گیا کہ وہ لوگ جو کہ عسکری اداروں کی بات کو سو فیصد درست قرار دیا کرتے تھے بلکہ ان کی بات سے اختلاف کو غداری کہا کرتے تھے، ان ہی اداروں کی جانب سے اس بھونڈے بیانیے اور سازش کی نفی کوماننے سے انکار کرتے نظر آئے۔
ایسا ہی کچھ حال پی ٹی آئی کے سپوٹرز کا رہا جو کہ ساڑھے تین سال سے حکومت کی ہوائی کارکردگی کو ڈیفنڈ کرنے میں مشغول تھے انہیں امریکی سازش کا لالی پاپ دے کر سوشل میڈیا پر ایسا طوفان بدتمیزی پھیلایا گیا کہ جس کی نظیر ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتی۔ آخری بال تک کھیلنے کے دعوے دار عمران خان کیسے اپوزیشن کی تحریک سے بھاگتے رہے؟ یہ پوری دنیا نے دیکھا۔
اپنی خودپسندی اور گھمنڈ میں گم عمران خان وہ پہلے وزیر اعظم قرار پائے کہ جن کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب قرار پائی۔ سیاست میں ہر جماعت کے کارکنان ہی اپنی اپنی جماعت کو ڈیفینڈ کرتے اور اس حوالے سے اپنے اپنے نظریات رکھتے اور ان کا پر چار کرتے نظر آتے ہیں، مگر ایک دوسرے کے نظریات سے اختلاف کی بنیاد پر غداری اور جھوٹے ہونے کے سرٹیفکیٹ نہیں بانٹتے۔
مگر بات تحریک انصاف کی کی جائے تو یہ کریڈٹ صرف عمران خان کو ہی جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے چاہنے والوں کی پچھلے 6، 7 سالوں میں کچھ اس قسم کی ذہن سازی اور تربیت کی ہے کہ وہ ان کی کہی کوئی بھی بات اور کسی بھی بیانیے کو بغیر کسی دلیل اور سوالات کے قبول کرلیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار میں رہتے بھی یہ اور ان کے چاہنے والے دوسری سیاسی جماعتوں کو غدار قرار دیتے رہے اور اقتدار سے بے دخلی پر بھی غدار اور سازش کرنے کا الزام لگاتے نظر آتے ہیں۔
بغیر ان سوالات کے جوابات جانے کہ کیا صرف ایک عمران خان کے علاوہ ایک دو نہیں تمام کی تمام سیاسی جماعتیں غدار ہیں کہ جو امریکہ کے کہنے پر رجیم چینج کا حصہ بن گئی؟ کیا آج سے پہلے کبھی کوئی ایسی سازش دیکھنے میں آئی کہ جہاں تمام جماعتیں ہی غدار ٹھہرائی گئی ہوں؟ ساڑھے تین سالہ حکومت میں عمران خان نے وہ کیا کارنامہ سرانجام دیا کہ جس بناء پر امریکہ ان کے خلاف سازش تیار کرتا؟
مگر ان سوالات کے جوابات تو تب تلاش کیے جاتے کہ جب عمران خان نے اپنے چاہنے والوں کے ذہنوں میں ذرہ برابر سوال پوچھنے اور اس کا جواب مانگنے کا عنصر چھوڑا ہو۔ غیر ملکی سازش کیا ہوتی ہے اس کو دیکھنے اور اس کی نوعیت سمجھنے کے لیے کسی غیر ملک کی نہیں اپنے ملک کی ہی درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ بیرونی طاقتوں کی جانب سے سازش تب کی جاتی ہے کہ جب انہیں اپنی سالمیت اور مفادات خطرے میں نظر آئیں۔
ہماری تاریخ میں سقوطِ ڈھاکہ بیرونی سازش کی کھلی مثال ہے کہ جب غیر ملکی سازش کے باعث ہم اپنا آدھا ملک گنوا بیٹھے۔ انڈیا براہِ راست اس سارے عمل میں پیش پیش رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو جو کہ ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے ایٹمی پروگرام میں پیش پیش رہے۔ اسلامی ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اسلام آباد میں اسلامی سربراہی کانفرنس میں اکٹھا کرنے پر انہیں اپنے ہی ملک کے آئینی اداروں سے تختہ دار پر لٹکایا جانا بیرونی طاقتوں کی ملک کے خلاف سازش تھی۔
اس کے بعد ایٹمی پروگرام کے تحت تجربات کی بات ہو تو پوری دنیا کے سامنے امریکی صدر بل کلنٹن کی اس وقت کے وزیرا عظم نواز شریف کو تجربات کرنے پر سنگین نتائج اور پیسوں کی آفرز بیرونی طاقتوں کی جانب سے کھلی مداخلت تھی۔ مگر اب شاید میری اس بات سے چند تاریخ سے لا علم یہ کہہ کر اختلاف کرنا چاہیں گے کہ ایٹمی دھماکے نواز شریف نہیں بلکہ اس وقت کی فوج کا فیصلہ تھا۔
مختصراً یہ کہ بیرونی سازش کو جس طرح پی ٹی آئی کی جانب سے ڈرامہ بنا دیا گیا اب شاید کوئی اصل میں بھی بیرونی سازش کرتی طاقت کھل کر سامنے آبھی جائے تو شاید لوگ ان کی باتوں پر یہ کہہ کر یقین کرنے سے انکار کر دیں کہ سازش تو صرف خط کے ذریعے ہوتی ہے۔
قوم کو غداری اور مرنے مارنے پر اُکسانے والے عمران خان اور ان کی جماعت کو سمجھ لینا چاہیے کہ 22 کروڑ عوام کا یہ ملک باشعور ہو چکا ہے۔ قوم یہ جان چکی کہ اصل سازشی تو وہ عناصر ہیں کہ جنہوں نے ملک کو آزادی سے لے کر اب تک ترقی پذیز سے ترقی یافتہ بننے سے روک رکھا ہے۔ مطلب خان صاحب آپ کا یہ نیا سازشی منجن آپ کی سیاسی بقاء کا ضامن تو ہو سکتا ہے مگر اسے عوامی رائے نہیں بنایا جا سکتا۔