Be Maqsad Inqilab
بے مقصد انقلاب
گزشتہ 5 سے 6 سالوں میں پاکستان میں بلند و بانگ دعوے اور حقائق سے ہٹ کر گفتگو کرنے پر مزاح کے طور پر ایک دوسرے کو ارسطو کے خطاب سے نوازنے کا ٹرینڈ شروع ہوا جو کہ تاحال جاری ہے جبکہ اگر تاریخ سے ارسطو کے بارے میں جاننے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے دور میں عظیم فلسفی گردانہ جانے والا ارسطو علم سیاسیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے، ارسطو نے اپنی دو تصانیف "اخلاقیات (Ethics) اور سیاسیات (Politics)" کی وجہ سے شہرت پائی ہے۔
اپنی کتاب اخلاقیات (Ethics) میں ارسطو نے انفرادی کردار کے اصول پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح ان اصولوں پر عمل کرکے فرد اپنی زندگی فطرت کے مثالی اصولوں کے مطابق بسر کر سکتا ہے، جبکہ ارسطو کی دوسری شہرہ آفاق تصنیف سیاسیات (Politics) ہے جس میں بنیادی طور پر ارسطو سیاست اور اخلاقیات میں گہرا تعلق قائم کرتا ہے، سیاسیات کے متعلق اپنے تمام نظریات وہ اسی کتاب میں بیان کرتا ہے، ارسطو نے اپنی اس تصنیف کے پانچویں حصے میں اپنا تصورِ انقلاب پیش کیا ہے اسی تصورِ انقلاب کی بدولت ارسطو بابائے سیاسیات نظر آتا ہے۔
بنیادی طور پر ارسطو نے انقلاب کو کم و بیش 8 اقسام میں تقسیم کیا ہے، بلاشبہ یہ تما م 8 اقسام دورِ قدیم سے دورِ جدید تک کسی نہ کسی صورت قائم ہوتی نظر آتی ہے، مگر اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھ کر ان اقسام پر نظر دوڑائیں تو 2 قسم کے انقلابات ایسے ہیں کہ جن کے اثرات کسی نہ کسی حوالے سے نظر آتے ہیں، ان میں پہلی قسم "شخصی انقلاب" ہے کہ جس میں ارسطو کے نزدیک بعض انقلاب صرف شخصی نوعیت کے ہوتے ہیں کہ جس میں انقلابی صرف برسر اقتدار طبقے کے خلاف ہوتے ہیں۔
جبکہ باقی سیاسی نظام کو وہ جوں کا توں رکھنے کے خواہش مند ہوتے ہیں، جبکہ دوسری قسم "بے مقصد انقلاب" ہے کہ جس میں ارسطو کے نزدیک بعض انقلابات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کا کوئی مقصد نہیں ہوتا، جس میں شعلہ بیان مقرر اپنی تقاریر سے لوگوں کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں اور حکومت کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو عوام الناس کے خلاف سازشیں ظاہر کرکے لوگوں کو راست اقدامات کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اب اگر ان دونوں اقسام کے انقلابات اور ان کی تشریحات کا ملک پاکستان کی موجودہ حالات سے موازنہ کیا جائے تو جو تصویر سامنے آتی ہے اس میں عمران خان اور ان کی جماعت ان دو انقلابات کو ملک میں برپا کرتے دیکھائی دیتے ہیں، ارسطو کے بیان کردہ شخصی انقلاب کو سامنے رکھا جائے تو یقیناََ اس وقت ملک میں پی ٹی آئی واحد جماعت ہے کہ جو نظریات کی بجائے صرف شخصیت پرستی کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔
بظاہر نظام کی تبدیلی کو بنیاد بنا کر صرف شخصی تبدیلی کی خواہش مند ہے، بلاشبہ عمران خان نے اس حوالے سے خوب محنت کی ہے اور تبدیلی کے خواب دیکھا کر نوجوان نسل کو جس راستے پر آج سے تقریباً 10 سے 12 سال پہلے گامزن کیا تھا وہ آج اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان کی بولی جانیوالی ہر بات اور حقائق کے برعکس گفتگو ہی ان کے چاہنے والوں کے لیے آخری بات ہے حقائق اور تاریخ سے ناواقف یہ نوجوان نسل بغیر کچھ سوچے سمجھے فقظ شخصیت پرستی میں اسے من و عن تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔
جہاں تک بات ارسطو کے بیان کردہ بے مقصد انقلاب کی ہے تو یہ شخصی انقلاب کی بدولت ہی برپا ہونے والا انقلاب دیکھائی دیتا ہے کہ جو عمران خان اور ان کی جماعت نے گزشتہ ایک سال میں اقتدار سے باہر آ کر قائم کرنے کی کوشش کی، ارسطو کی تشریح کے عین مطابق عمران خان نے حقائق کو منہ چڑاتی اپنی شعلہ بیانی سے ساڑھے تین سالہ ناکامیوں کا ملبہ اسٹیبلشمنٹ کے پلڑے میں ڈال کر خود کو پھر سے انقلابی اور نجات دہندہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔
وہ نوجوان نسل جو حقائق سے دور پہلے ہی شخصیت پرستی میں جکڑی تھی انہیں اپنی شعلہ بیانی سے مزید تاریک راستے پر گامزن کیا کہ جہاں خدانخواستہ ملک میں انارکی اور بدامنی کی سی فضا قائم ہو سکے، آج انقلابی نظر آنے والے یہ وہی عمران خان ہیں کہ جو اپنی سیاسی مقبولیت پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار اقتدار پر براجمان ہوئے تھے، اور اپنے دور حکومت میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں غیر آئینی مداخلت کو ہر حوالے سے جائز قرار دے کر اس کے خلاف بات کرنے والی اپوزیشن جماعتوں کو غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹا کرتے تھے۔
صرف یہ ہی نہیں بلکہ شخصیت پرستی میں محو اپنی سوشل میڈیا برگیڈ سے غلیظ ٹرینڈ اور اپنے خلاف بات کرنے والوں کی عزتیں اُچھالنا فرض سمجھ کر کیا کرتے تھے، اپنے بے مقصد انقلاب اور دوبارہ اقتدار کے حصول کی کوششوں میں عمران خان اور ان کی جماعت اس قدر برق رفتاری سے محو سفر تھی کہ ریاست کے ستون اور ریاستی رٹ کے ضامن اداروں کا تقدس بھی ان کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکا اور نتیجتاً 9 مئی کو ان کی گرفتاری کے بعد شخصیت پرستی اور ایک سال سے جاری بے مقصد انقلاب کی یہ تند و تیز موجیں ریاست سے ٹکرا گئیں۔
بظاہر پڑھے لکھے اور معتدل نظر آنے والے ہزاروں نوجوان، بزرگ، بچے اپنی آنکھوں میں انقلاب کے خواب سجائے ان موجوں میں بہتے ریاست کی قائم کردہ ریڈ لائن کو پار کر بیٹھے، جس کا نتیجہ ملک میں فسادات، جلاؤ گھیراؤ کی صورت سامنے آیا، یقیناََ 9 مئی کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ان انقلابیوں کو یہ یقین تھا کہ اس سب کے بعد ملک میں انقلاب برپا ہو جائے گا اور ریاست ان حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو جائے گی اور پھر ماضی میں اقتدار کے لیے اپنا کندھا فراہم کرنے والی اسٹیبلشمنٹ پھر سے عمران خان کو اپنے کندھوں پر سوار کرکے اقتدار کے منصب پر بیٹھا دے گی اور ان تمام انقلابیوں سے اپنے کیے جلاؤ گھیراؤ پر حساب مانگنے کی بجائے ریاست انہیں اس انقلاب کا ہیرو قرار دیتے ہوئے تمغوں سے نوازے گی۔
بلاشبہ حقائق سے ناواقف ان انقلابیوں نے انقلاب کی کامیابی کی منظر کشی تو ذہن نشین کر رکھی تھی مگر انقلاب کی ناکامی پر انجام کسی بھی انقلابی کے تصور میں نہیں تھا بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ان کے نزدیک اس انقلاب میں ناکامی تھی ہی نہیں تو غلط نہیں ہوگا، اگر انقلاب کی کامیابی پر وسیع پیمانے پر تبدیلیاں ہونا ایک حقیقت ہے تو انقلاب کے ناکام ہونے پر یقیناََ اس کا حساب لیا جانا بھی ایک حقیقت ہے، 9 مئی کو پی ٹی آئی کی جانب سے برپا اس انقلاب کے جواب میں ریاست اور اسی کے اداروں نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور جوابی کاروائی نہ کرنے کی حتی الامکان کوشش کی۔
یہ ہی وجہ تھی کہ عمران خان اور ان کی جماعت ملک بھر میں بے مقصد انقلاب برپا کرنے میں تو کامیاب رہی مگر اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر انارکی اور فسادات کی فضا قائم کرنے میں ناکام رہی، تجربہ کاروں کے نزدیک 9 مئی پاکستان کے لیے کسی بھی حوالے سے 9/11 سے کم نہیں تھا، مگر ریاست پاکستان نے اپنی فہم و فراست سے اسے پھیلنے سے روک دیا، اور پھر یقیناََ انقلاب کی ناکامی کے بعد یوم حساب برپا ہونا بھی تو ایک حقیقت ہے۔
9 مئی کے بعد سے اب تلک عمران خان اور ان کی جماعت کا یوم حساب ہی جاری ہے عمران خان کے بے مقصد انقلاب کی بھینٹ چڑھ کر ہزاروں کارکنان آج ریاستی اداروں پر حملے کرنے اور انارکی پیدا کرنے کے جرم میں دہشت گردی کی دفعات پر مشتمل مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، یقیناََ ان گرفتار کارکنان میں ہر شخص کے جرم کی نوعیت الگ ہوگی اور سب اپنے جرم کی نوعیت کے حساب سے سزا کے مستحق ٹھہرائے جائیں گے، اور یقیناََ ان گرفتار انقلابیوں میں سے کئی کی شخصیت پرستی اور انقلاب کی پٹی سے بند آنکھیں کھل چکی ہوں گی اور کئی اب بھی اسی شخصیت پرستی اور انقلاب میں محو ہوں گے۔
مگر ایک بات مسلمہ حقیقت ہے کہ ان سب انقلابیوں کا مستقبل عمران خان اور ان کی جماعت کے باعث تباہ ہو چکا، ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں عمران خان کے دوبارہ اقتدار میں آنے پر جو بظاہر اب مشکل نظر آتا ہے سب رہا ہو جائیں مگر ان تمام انقلابیوں کی کرمنل ہسٹری ان کے مرنے تک ان کے ساتھ رہے گی اور ان کے مستقبل میں ان کے لیے کئی مشکلات کا سبب ثابت ہوگی اور انہیں تادیر ریاست کے مقابل کھڑے ہونے والوں کے لیے باعثِ عبرت بطور مثال پیش کیا جاتا رہے گا۔