Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raja Najm Ul Hassan
  4. Raat Ke Ullu

Raat Ke Ullu

رات کے الو

یہ بات ہے2018 کی ہے جب ہاسٹل کے کمرے میں رات 1 بجے لائٹ آن رہتی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ایک مشرق اور دوسرا مغرب تھا۔ ایک نے تمام رات بیٹھ کر کتابیں پڑھنا ہوتی تھیں اور دوسرے نے مزے سے سونا ہوتا یا پھر موبائل پر انٹرنیٹ استعمال کرنا ہوتا تھا۔

یہ دونوں میرے روم میٹ تھے اور یہ ہماری ہاسٹل لائف تھی۔ میں ان دونوں کے درمیان میانہ روی کی پالیسی اختیار کرتا تھا پھر بھی ان دونوں کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکا۔ میں رات 11 بجے تک کتابیں کھول کر بیٹھتا لیکن ان میں نصاب سے زیادہ کالج لائبریری میں سے اپنی پسندیدہ کتب ہوتی اور اس کے بعد سو جاتا۔ صبح 4 بجے بیدار ہوتا اور یہ وقت نصاب کی کتب کے مخصوص تھا۔

اس وقت ہمیں اپنے حلقہ احباب میں رات کے الو کہا جاتا تھا۔ آج وہی موضوع ذہن میں گردش کرنے لگا۔ جب سے انٹرنیٹ کے سستے پیکجز متعارف ہوئے ہیں نوجوان نسل کا راتوں کو جاگنا معمول بن گیا ہے۔ ہر ایک کا مقصد مختلف ہے میڈیکل اور انجینئرنگ کے طلبہ و طالبات آج بھی راتوں کو بیٹھ کر رٹے لگاتے ہیں جبکہ ان کے ساتھ ساتھ سی ایس ایس کے خواہشمند خواتین و حضرات بھی شامل ہیں۔ لیکن وہ طالبہ و طالبات جو رات بھر گفت و شنید میں مصروف عمل رہتے ہیں ان پر پاکستان میں رات کے الو والی مثال صحیح ثابت ہوتی دیکھائی دیتی ہے۔ اساتذہ اور دوستوں سے کئی بار سن چکا ہوں کہ مغربی معاشرے میں الو اہل دانش سے منسوب پرندہ ہے لیکن ہم پاکستانی الو کو بطور گالی بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ ہم مانیں یا نہ مانیں ہماری پوری قوم رات کے الو تو بن چکی ہے۔ ہاں دنیا میں یہ واضح کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اہل مغرب والے الو ہیں یا استاد صاحب جو بچپن میں الو کا پٹھا کہا کرتے تھے وہ والے الو ہیں۔

رات کی اصل مناسبت تو اندھیرے سے ہے۔ یہ بھلا ہو بجلی بنانے والے کا جس کی وجہ سے اب دن رات کی تفریق ہی ختم ہوگئی ہے۔ اگر بات الو کی چل ہی پڑی ہے تو اپنے معاشرے سے اس الو کا تھوڑا مزید جائزہ لیتے ہیں۔ ہمارے نوجوان رات بھر جاگتے ہیں سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں یہی سے ان کے نظریات بنتے ہیں اور وہ فقط انہی نظریات کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ اصل حقائق مختلف ہیں جو آج تک قوم کے دانشور نہیں سمجھ سکے لیکن سکول کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کہیں نہ کہیں آپ کو یہ دعویٰ کرتے ضرور ملیں گے کہ ہم زیادہ جانتے ہیں۔

ان رات کے الوؤں سے سوال کرو کہ پتر علم اور معلومات میں کیا فرق ہے؟ کیا جس نظریہ کی تم بات کر رہے ہو تم اس واقع کے چشم دید گواہ ہو؟ کیا تم نے ان چیزوں چیزوں کا تقابلی مطالعہ کیا ہے؟ تمہارا استاد اور گرو کون ہے؟ مطالعہ کو کتنا وقت دیتے ہو؟ جس نظریہ کا حوالہ دے رہے ہو اس کا موجب اور بانی کون تھا یا ہے؟ اس نظریہ کا پس منظر کیا تھا؟ کیا اس کی کوئی نظیر ہمارے معاشرے میں موجود ہے؟ یہ چند سوالات کافی حد تک کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں۔

رات کے الو کے پاس ان کے جوابات ہوسکتے ہیں لیکن یہ کونسا الو ہے یہ واضح ہونا نہایت ضروری امر ہے۔ ویسے بھی الو کے پٹھے ہونے کی نسبت خالص الو بننا زیادہ بہتر ہے۔ ایک اور بات واضح کرتا چلوں کے کہ فری لانسر کمیونٹی کو ہرگز ہرگز رات کا الو نہ کہیں کیونکہ وہ مائنڈ کرسکتے ہیں اور اگر یہ گنتی کے چند لوگ بھی مائنڈ کر گئے تو ملک میں جو ڈالر آرہے ہیں وہ آنا بھی بند ہوسکتے ہیں۔ ملکی معیشت میں اس وقت ڈالرز کی بڑی خاص اہمیت ہے۔

میرا تو برادرانہ مشورہ ہے کہ بہتر ہے بندہ کچھ سکلز سیکھ کر فری لانسر بن جائے کیونکہ جب ہمارے پاس ڈالرز ہوں گے تو ہمیں کوئی پاکستانی الو کہہ کر مخاطب نہیں کرے گا۔ اہل مغرب اگر ہمیں الو کہیں گے تو وہ اپنے معاشرے کو مد نظر رکھتے ہوئے کہیں گے جو کہ قدر کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔

ویسے انسانوں میں یہ بات بہت زیادہ سنی ہے کہ ہر کامیاب شخص جس کو میڈیا کامیاب کہتا ہے۔ اس شخص نے راتوں کو بہت محنت کی اس فارمولے پر میں نے عمل کرنے کی کوشش کی تو صحت نے جواب دینا شروع کردیا۔ دوران کلاس میں کسی خرگوش کی طرح خواب غفلت کا شکار ہو جاتا اور مزاج میں تلخی بہت بڑھ گئی تھی۔ پھر دل کو یہ کہہ کر سمجھا لیا کہ بھائی تو رات کا الو نہیں بن سکتا۔ دن میں جتنا کام کر لے گا تیرے واسطہ کافی ہے۔

میں آخر تک اس نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہا کہ رات کا الو بننا بہتر ہے یا نہیں۔ لیکن محنت ضروری ہے اور آپ اپنی عادتیں درست کرکے دن میں اتنی محنت کرسکتے ہیں جو آپ کو کامیاب بنا دے۔ آخر میں یہی دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہم سب کو بطور قوم کامیاب و کامران فرمائے آمین ثم آمین۔

Check Also

Quwat e Iradi Mazboot Banaiye

By Rao Manzar Hayat