Pecheedgiyan (1)
پیچیدگیاں (1)
یہ یونانی اور ماڈرن رائٹرز ہمیں تقدیر اور خود اختیاری کے چکر میں ڈال کر چلے گئے ہیں۔ شایان شام کے وقت چارپائی پر لیٹا سوچ رہا تھا۔ کیا میری ناکامی تقدیر ہے یا پھر میرے ہی کسی ذاتی عمل کا نتیجہ ہے۔ اس کا دماغ سن ہونے لگا تھا اور چہرے کی رنگت زرد پڑنے لگی تھی۔ اسی دوران سر پر تھال سجائے ایک لڑکی جب گھر کی حویلی میں داخل ہوئی تو شایان کی توجہ لمحے بھر کے لیے منتشر ہوئی اور پھر اسی لڑکی پر جا ٹھہری۔ خالہ کیا تندور گرم ہے اماں نے کہا کہ خالہ ثریا کے تندور سے روٹیاں لگا لینا۔ دوسری جانب سے ایک آواز آئی کہ دعا کی بچی آجاؤ پہلے تم روٹیاں لگا لو۔ یہ آواز شایان کی بڑی بہن فروا کی تھی۔
شایان دعا کی طرف کی متوجہ تھا تو جب وہ دو قدم آگے بڑھی تو شایان کہنے لگا دعا تمہارے پیپر ہوگے ہیں کیا؟ دعا جی ہوگئے ہیں۔ تندور کے قریب کھڑی فروا دعا سے مخاطب ہوتے ہوئے آٹا مجھے دے دو اور میرے محترم بھائی کو کچھ تبلیغ کرکے جاؤ پتا نہیں دن رات کیا سوچتا رہتا ہے۔ دعا تھوڑے شرمیلے انداز میں جی باجی کوشش کرتی ہوں۔ شایان کے قریب پڑے ایک سٹول پر دعا بیٹھ گئی تھی۔ جی فروا باجی کیا کہہ رہی ہیں کیا معاملہ ہے؟
شایان ہچکچاہٹ کی کیفیت میں تم نے اسلامیات میں ماسٹر کیا ہے یہ بتاؤ ہمارے ساتھ زندگی میں جو کچھ ہوتا ہے وہ ہماری تقدیر ہے یا پھر ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ لمحہ بھر کے لیے تو دعا کی سانس بھی رک سی گئی تھی۔ جی دیکھیں میں آپ جتنا فلسفہ اور ادب تو نہیں جانتی لیکن یہ جانتی ہوں اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرلیں تو ان فلسفی بحثوں سے انسان آسانی سے نکل سکتا ہے۔ بس اس کی مان کر چلو پھر کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ تقدیر کی صورت میں دے یا عمل کے نتیجے میں۔ جو کچھ ہمارے ساتھ برا ہوتا ہے اس کے متعلق یہی کہوں گی کہ ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے اور کم زور ایمان والے اس پر ہائے ہائے کرتے ہیں اور ایمان والے صبر۔
شایان یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ تندور سے آواز آئی روٹیاں تیار ہیں دعا۔ دعا پریشانی کے عالم میں او ہو میری نماز کا وقت ہوگیا ہے میں چلتی ہوں اللہ حافظ۔ اس کے بعد شایان یہ خود سے کہتے ہوئے مسجد کی طرف روانا ہوگیا کہ یہ سب ذہنی پیچیدگیاں ہم نے خود بنا رکھی ہیں زندگی کے اصول بہت واضح ہیں بس الجھاؤ کی پالیسی نہ اپنائیں۔
جاری۔۔