Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raja Najm Ul Hassan
  4. Pakistan Mein Pagri Ki Saqafat

Pakistan Mein Pagri Ki Saqafat

پاکستان میں پگڑی کی ثقافت

پگڑی ہمارے پاکستان کے تین صوبوں کی ثقافت کا اہم حصہ ہے۔ پگڑی محض لباس کا ایک حصہ نہیں بلکہ ایک سوچ اور فلسفہ ہے۔ پختون، بلوچی اور پنجابی تینوں اقوام میں یہ پگڑی عزت و غیرت کی علم بردار ہے۔ ایک دہائی قبل تک اس پگڑی کو وہی اہمیت حاصل تھی جو ایک آرمی آفیسر کے تمغوں کو حاصل ہوتی ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر گھر کے بڑے باپ دادا سر پر یہ پگڑی سجاتے تھے اور بڑا فخر محسوس کرتے تھے۔

آج بھی پختون اور بلوچ معاشرے میں پگڑی کی روایت زندہ ہے جبکہ پنجابی معاشرے میں اس پگڑی پر قدرے زوال محسوس ہو رہا ہے۔ آج کل یہ پگڑی گھڑ سواری اور نیزہ بازی کے دوران سوار سر پر سجاتے ہیں۔ اس کے علاؤہ جب کوئی شخص دنیائے فانی سے رخصت ہوجائے تب بھی مرحوم کے بڑی بیٹے کو یہ پگڑی پہنائی جاتی ہے۔

ماضی میں ایک وقت تھا کہ نواب کالا باغ امیر محمد گورنر جیسی شخصیات اس پگڑی کا مان میں اضافہ کرتی تھیں۔ گاؤں کا سب سے بڑا زمین دار طرہ والی پگڑی باندھتا تھا جب کے باقی لوگ بغیر طرہ کی۔ کیونکہ اس پگڑی کی نسبت مرد کے لباس سے ہے اور اس پگڑی سے عزت کی ہزاروں داستان منسلک ہیں۔ اس وجہ سے اس پگڑی پر کئی شعراء اور مصنفین نے اس پر بہت تنقید فرمائی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہم پنچابی پاکستانی جس قدر اپنی تہذیب و ثقافت سے دور بھاگتے ہیں شاید ہی کوئی اور بھاگتا ہو۔

آج کے پنچابی نوجوان کو پگڑی، لاچہ (چادر) اور کھسہ پہنتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ حالانکہ اقوام عالم میں لوگ اپنی تہذیب و ثقافت کے لیے کٹ مرتے ہیں۔ انڈیا کے پنجابی لوگ اپنی ثقافت پر فخر کرتے ہیں اور ہم شرم۔ اچھا تو پگڑی کی طرف واپس آتے ہیں۔ بطور پنچابی نوجوان مجھے پگڑی سے محبت ہے لیکن اگر اس سے منسلک کسی داستان پر نظر دوڑائیں تو شاید یہ محبت ماند پڑ جائے۔

کئی نوجوان لڑکیوں کی زندگی بھی اسی پگڑی نے نگلی ہے اور کئی گھروں میں جنازوں کی وجہ بھی یہی پگڑی بنی۔ ہمارے برصغیر کے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی تمام تہذیبوں پر تاج برطانیہ کی کالونی والی چھاپ ہے۔ ہماری اصل ثقافت کو تو کب کا موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ ہماری ثقافت سے ایسی روایات کو جوڑا گیا کہ نوجوان نسل کو اس سے نفرت ہوگئی۔ آج ہم انگریزی لباس میں فخر محسوس کرتے ہیں حالانکہ اس سے بڑی ذہنی غلامی کی مثال کوئی چیز نہیں ہے۔

پگڑی کی خاطر کئی قتل بھی ہوتے ہیں اور کئی فیصلے بھی جو گھروں کو بڑی لڑائی جھگڑوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں پگڑی کی اہمیت تب ہے جب وہ ایک ذمہ دار اور ذہین شخص کے سر پر موجود ہو۔ یہاں ذمہ دار اور ذہین غلام سوچ کے مالک ہیں جبکہ ان پڑھ اس پگڑی کے مان کی خاطر اب بھی لڑ رہے ہیں۔ مجھے والد صاحب ایک قصہ سنایا کرتے ہیں کہ ایک بار علاقے کے دو معزز شخصیات کے درمیان دو فٹ زمین کا تنازعہ شروع ہوگیا۔ اس وقت کے تحصیل دار نے فیصلے کے لیے والد صاحب کو بلایا کہ ان اشخاص کے درمیان فیصلہ کریں۔ والد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے تحصیل دار صاحب سے معذرت کر لی اور معاملہ کافی حد تک ٹھنڈا ہوگا کیونکہ دو اشخاص والد صاحب کے دوست تھے۔ کچھ دن بعد ایک دوست سے جب والد صاحب کی ملاقات ہوئی تو وہی موضوع زیر بحث آیا۔ اس ایک شخص نے والد صاحب کو بتا کہ مسئلہ پگڑی کا تھا، میری پگڑی چلی جاتی اگر دوسرا فریق دوفٹ زمین کا قبضہ مجھ سے لے لیتا۔

والد صاحب یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد کہا کرتے ہیں کہ بیٹا پگڑی ہمارا مان ہے اور یہ پگڑی ہر سر پر نہیں ہوتی بلکہ اس سر کو قابل بنانا پڑتا ہے۔ بعض اوقات اگر یہ پگڑی غلطی سے کسی احمق کے سر پر آ جائے تو فقط تباہی جنم لیتی ہے۔ والد صاحب کی یہ باتیں اگر ذہن میں آتی ہیں کہ آج کل یہ پگڑی غلط سر پر ہے یا صحیح سر پر؟

پاکستان میں پگڑی کی اہمیت تو بہت ہے لیکن اس پگڑی کے مان نبھانے والا سر قلیل ہی بچے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سروں کی حفاظت فرمائے جنہوں نے اس پگڑی کے مان رکھے ہیں۔

Check Also

Phone Hamare Janaze Nigal Gaye

By Azhar Hussain Bhatti