Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raja Najm Ul Hassan
  4. Khud Kalami

Khud Kalami

خود کلامی

میں اکثر سوچتا ہوں کہ میں ریت کے ذرے بن کر کسی ساحلی پٹی پر بکھر جاؤں یا کسی گم نام سے صحرا کا جز بن جاؤں۔ مگر مجھے ڈر کر ہے کہ حضرت انسان مجھے وہاں بھی نہیں چھوڑے گا اور ایک دن میرے ذات کے ذروں کو کسی سیمنٹ کا حصہ بنا کر ایک پختہ عمارت کھڑی کر دے گا جہاں انسان نما مشینوں کا شور ہوگا اور میری انفرادیت اس ہجوم میں کھو جائے گی۔

پھر میں سوچتا ہوں کہ میں کسی افریقی جنگل کا شیر ہوتا اور پورے جنگل پر حکمرانی کرتا کیونکہ شاید جانوروں پر حکمرانی کرنا انسانوں سے زیادہ آسان ہے وہاں ہمیشہ شیر ہی طاقت کا سرچشمہ بنا رہتا ہے۔ وہاں نہ تو انسانوں جیسی جمہوریت ہوتی ہے اور نہ پانچ سال بعد الیکشن۔ جنگل میں کرپشن بھی نہیں ہوتی کیونکہ وہاں طاقت ہی سب کچھ ہوتی ہے اور آج کے انسانوں نے انسانیت چھوڑ کر جنگل کا قانون ہی تو اپنا لیا ہے کہ طاقت اور دولت سب کچھ ہے۔ مگر جنگل بھی تو انسانی مداخلت سے پاک نہیں شاید آج کسی جنگل کا بادشاہ کل کسی چڑیا گھر کی رونق ہو یا پھر کسی سرکس کا حصہ۔

دل میں تو یہ خواہش بھی جنم لیتی ہے کہ کسی گلاب کی خوشبو بن جاؤں اور فضاؤں میں مہکتا پھروں۔ لیکن پھولوں کی خوشبو بن کر بھی کتنی دیر مہک سکوں گا؟ فقط چند گھڑیاں۔ اس خود کلامی میں شاید بہت آگے نکل گیا ہوں اب واپسی کا سفر شروع کرتے ہیں کیونکہ منزل پیچھے رہ گئی ہے۔ جس طرح میں خود کلامی کے سفر میں اگے نکل آیا ہوں آپ ایسا مت کیجئے گا۔ ہم انسان اشرف المخلوقات ہیں اور اس درجے کی وجہ سے ہمارا امتحان بھی بہت سخت ہے۔ انگریزی شاعری میں جان کیٹس کا نظریہِ فرار بہت مشہور ہے۔ جب انسان زندگی سے بے زار ہو جاتا ہے تو وہ اس سے فرار کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور خود کلامی کرتے کرتے وہ اپنی ایک تخیلاتی دنیا قائم کر لیتا ہے جہاں اس کے مرضی کے مطابق ہر چیز عمل کرتی ہے۔

شاید میں خود کلامی کرتے وقت بھی اسی تخیلاتی دنیا میں چلا گیا تھا۔ آپ کے لیے مشورہ ہے کہ آپ ریت کے ذرے، جنگل کا شیر اور گلاب کی مہک ہرگز نہ بنیں۔ آپ صرف انسان بن جائیں اور انسانیت اختیار کر لیں۔ انسانیت کا بغور مطالعہ کریں تو دین اسلام کی تعلیمات سمجھ کر آپ کو معلوم ہوگا کہ انسانیت کو بھی انہی تعلیمات سے اخذ کیا گیا ہے۔ انسانیت کیا ہے؟ ہر انسان سے اچھی طرح پیش آنا اور بطور انسان اس کی قدر کرنا۔ اس میں رنگ، نسل، قوم اور ملک کی کوئی قید نہیں ہے۔

یہی چیزیں اسلام میں بھی ہیں۔ اسلام میں جہاد کا حکم ہے لیکن اس کی مختلف اقسام ہیں اور غیر مسلم اقوام کے ساتھ جہاد تب کرنا چاہیے جب وہ آپ کے خلاف سازش کریں۔ اب انسانیت کا درس دینے والے اگر خود سازشیں کریں اور مسلم اقوام کو انسانیت کا درس دیں تو نہایت معیوب بات معلوم ہوتی ہے۔ اچھا خیر بات تھی منزل پر واپسی آپ جب بطور انسان اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے تو یہی ریت آپ کی پناہ گاہ بنے گی اور جنگل نما ویرانا آپ کا مسکن اور اسی گلاب کی پتیاں آپ کی قبر پر نچھاور ہوں گی۔

ہمیں بطور انسان خود کلامی کرنی چاہیے تاکہ خود کو پہنچان سکیں کہ ہم کون ہیں؟ اور کیا کر رہے ہیں؟ شاید بہت سے لوگوں خود کلامی کے عمل سے اپنا تزکیہ نفس کرسکتے ہیں اور خود کو مفید انسان ثابت کرنی کی ہر ممکن کوشش کرسکتے ہیں۔ ہاں ایک بات کا خیال رکھیں کہ خود کلامی میں وسوسوں کا شکار نہ بنیں اور شیطانی سوچوں پر عمل نہ کریں۔ اب فرق کیسے معلوم ہوگا کہ خودکلامی تزکیہ نفس ہے یا شیطانی وسوسہ؟ اگر خود کلامی کی مشق میں آپ وہ سوچ رہے ہیں جس کا اظہار بغیر خوف و خطر آپ کسی سے بھی کرسکتے ہیں تو یہ خود کلامی تزکیہ نفس کی طرف قدم ہے اور اگر آپ کسی ایسے منصوبے میں ہیں کہ لوگوں سے اس کو چھپا لوں کیسی کو معلوم نہ ہوسکے تو پھر مزید سوچ بچار کی اشد ضرورت ہے شاید یہ شیطانی وسوسہ ہو۔

Check Also

Roos, Nuclear Doctrine Aur Teesri Aalmi Jang

By Muhammad Aamir Iqbal