Infiradiat Pasandi
انفرادیت پسندی
تنہا رہنے والے شخص کی دو کیفیات ہوسکتی ہیں۔ اول یہ کہ وہ فرشتہ صفت انسان ہے یا پھر انسان کے روپ میں ایک بھیڑیا ہے۔ اگر انسان قدرت کی تخلیق پر غور کرے تو اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ تقریباً تمام اشیاء کو جوڑے کی شکل میں پیدا کیا گیا ہے۔ انسانوں میں مرد اور عورت، حیوانات و نباتات میں مذکر اور مونث جنس کا وجود جدید سائنس سے بھی ثابت ہے۔
اس وقت ہمارے معاشرے میں انفرادیت پسندی کا عنصر غالب ہوتا نظر آرہا ہے۔ ہر فرد کو انفرادی مفادات ہی عزیز ہیں۔ ایک سرمایہ دار کو اس کا منافع عزیز ہے تو ایک مزدور کو ایک دن کی اجرت۔ اس انفرادیت کی وجہ سے ذاتی خواہشات کا پروان چڑھنا اور اس کی تکمیل میں ناجائز ذرائع کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے۔ جیسا کہ جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے کسی معصوم کی عزت تک کو تار تار کر دیا جاتا ہے۔ اس کی دو بڑی مثالیں سانحہ موٹر وے اور زینب قتل کیس ہے۔
ہمارے سکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات بھی اس انفرادیت کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ ان کے لیے خود کو سب سے نمایاں دیکھنا، زیادہ نمبر حاصل کرنا، مہنگی گاڑی اور موبائل فون کا حصول شامل ہے۔ اس کے علاؤہ آنلائن ورک کے ذریعے امیر ہونا بھی شامل ہے لیکن اس پر ایک الگ بحث کی جاسکتی ہے کہ اس کے مثبت و منفی اثرات کیا کیا ہیں۔
انسان اپنے معاشرے کی ہی پیداوار ہوتا ہے اور اس میں پیدا ہونے والی خواہش بھی اس معاشرے کا اثر ہوتی ہے۔ آپ کے ساتھ میں شایان کی کہانی بیان کرتا ہوں جس کی انفرادیت پسندی نے شایان کا ذہنی سکون چھین لیا۔ شایان صاحب کا کہنا تھا کہ مجھے بچپن میں حسب روایت یہی کہا جاتا تھا کہ بیٹا تم نے ڈاکٹر بننا ہے۔ شایان کے کورے ذہن میں یہ بات نقش ہو چکی تھی کہ شایان نے ڈاکٹر ہی بننا ہے۔ اس خواہش کی تکمیل میں شایان اپنی پڑھائی میں اس قدر مگن رہتا کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ بیٹھ کر چند لمحے بات تک نہیں کرسکتا تھا۔ سارا دن سکول اور پھر ٹیوشن کا کام کرتے کرتے گزر جاتا اور بچپن کے دنوں میں شایان ایک نارمل بچے کی نسبت کم ذہین اور زیادہ محنتی تھا۔
شایان اپنی تمام تر محنت سے بھی وہ نتائج نہ لا سکا جس کا شایان خود خواہشمند تھا لیکن شایان کی کوشش جاری تھی۔ ایک دن شایان کو کلاس ٹیچر کی طرف سے کہا گیا کہ کل تمہارا ریاضی کا ٹیسٹ ہوگا۔ شایان حسب معمول گھر پہنچا اور ٹیسٹ کی تیاری میں مشغول ہوگیا۔ تمام دن اسی تیاری میں گزر گیا اور شایان پریشانی کے عالم میں رات کے وقت تھک ہار کے سو گیا۔ صبح کو تیار ہوکر سکول جانے لگا تو اداسی کا یہ عالم تھا کہ اپنی والدہ کو اللہ حافظ تک نہ کہہ سکا۔ شایان کے لیے زندگی میں ایک خواہش کی تکمیل سب سے اہم تھی اور وہ تھا ڈاکٹر بننا۔ لیکن اس روز شایان جوں ہی سکول اسمبلی سے فارغ ہوا تو اس نے اپنی طرف اپنے چاچو کو آتے ہوئے دیکھا جو سیدھا استاد صاحب کے پاس گیا۔
شایان اپنے چاچو کو دیکھ کر خوش تھا کہ آج ٹیسٹ سے چھٹی مل جائے گی اور ان دنوں چاچو کی منگنی کی خبریں بھی گردش کر رہی تھیں تو فوراً وہ خیال ذہن میں ٹھک سے آگیا۔ چاچو نے چھٹی لی اور شایان موٹر سائیکل پر سوار چاچو کے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں شایان کے چاچو نے بتایا کہ بیٹا تیری امی کی صحت درست نہیں اس وجہ سے تیری چھٹی لی ہے۔ یہ بات سن کر شایان کے چہرے پر جو خوشی تھی کسی غم میں بدل گی۔ جب گھر پہنچا تو اس کے سامنے گھر کے صحن میں چار پائی پر اس کی والدہ کی لاش موجود تھی اور تمام خاندان اشک بار تھا۔
شایان اپنی یہ کہانی اکثر مجھ سے شیئر کرتا ہے اور کہتا ہے میں انفرادیت پسندی میں اپنی ماں کے بوسوں تک سے محروم رہا ہوں۔ میرے لیے یہ ڈگری یہ کامیابیاں کس کام کی جب کہ میں دو پل اپنے ماں کے پاس بیٹھ کر خوش بھی نہیں ہوسکا۔ اپنے دل کی ایک بات تک کو کھل کر بیان نہیں کرسکا۔ شایان جب بھی مجھ سے ملاقات کرتا ہے تو کہتا ہے نجم بھائی اپنوں کی قدر جانو اور انفرادیت کے خول سے باہر نکل آؤ۔ زندگی مختصر ہے اور خواہشات لا محدود۔ رزق حلال کے لیے کوشاں رہو لیکن چیزوں کے پیچھے اتنا مت بھاگوں کے قیمتی رشتے گوا بیٹھو۔
میں جب بھی اکیلا بیٹھتا ہوں تو شایان کا نظریہ انفرادیت پسندی میری سوچوں میں گردش کرتا ہے اور میں سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ کیا انفرادیت پسندی کا جال اس قدر خطرناک ہے؟ ہمیں بطور انسان اس انفرادیت پسندی کے چکر اور بھنور سے باہر نکلنا چاہیے۔ شاید جو بگاڑ انفرادیت کی وجہ پیدا ہوا ہے اس میں کمی لائی جا سکے۔ کیونکہ عام مشاہدہ ہے کہ جب فرد واحد کے پاس لامحدود اختیارات آتے ہیں تو وہ بھی انفرادیت کا شکار ہوجاتا ہے اور اپنی ذات تک خود کو محدود کر لیتا ہے۔ ہم زندگی میں بڑے بزنس مین، ڈاکٹر اور بیوروکریٹ یا زمیندار تو بن جاتے ہیں لیکن ہم اچھے شہری، اچھے بھائی، بیٹے اور شوہر نہیں بن پاتے۔ شاید اس کے پیچھے انفرادیت پسندی اور ذاتی خواہشات کی ایک نا ختم ہونے والی جنگ ہے۔
انسان کی زندگی میں توازن بہت ضروری ہے۔ کسی بھی کام یا شے کی کثرت ہمیشہ فساد کی وجہ ہی بنتی ہے۔ زندگی میں توازن کو قائم کرنے لیے انفرادیت سے نکلنا نہایت ضروری ہے۔ اللہ تعالٰی سے دعا کہ اللہ تعالٰی ہماری ذات کو ہمارے لیے اور معاشرے کے دیگر افراد کے لیےفلاح کا ذریعہ بنا دے۔