Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raja Najm Ul Hassan
  4. Baron Ki Bari Ghalatian

Baron Ki Bari Ghalatian

بڑوں کی بڑی غلطیاں

ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں وہاں ہرگز بڑوں کی کمی نہیں ہے۔ اگر دیہی ماحول میں دیکھا جائے تو ہر خاندان میں ایک بڑا تایا، بڑا ابو، بڑا بھائی یا ملک صاحب، سردار صاحب یا وڈیرہ موجود ہوتا ہے۔ اس بڑے کے پاس اکثر بڑے اختیار ہوتے ہیں۔ یہ اختیار نہ تو کسی آئین میں درج ہیں نہ کسی قانون کا حصہ۔

اسی طرح ہر ریاست میں بھی سرکاری و غیر سرکاری بڑے ہوتے ہیں۔ ریاست کا صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف نہایت ہی بڑے لوگ سمجھے جاتے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ اب ان تمام بڑے لوگوں کے کام بھی بڑی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ذمہ داریاں بھی۔ ان کی ایک غلط پالیسی سے ملکوں کے ملک اور خاندانوں کے خاندان تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔

اس کی زندہ مثال امریکہ افغان جنگ تھی جس کے نتیجے میں نا جانے کتنے معصوم پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ امریکہ کا ساتھ دینا ایک بڑے کی بڑی غلطی تھی کیونکہ ہم نے غیروں کی جنگ لڑی۔ اسی طرح ہمارے چند بڑے سیاست دان اقتدار کے ایوانوں میں غیر جمہوری گیٹ سے داخل ہوئے اور پھر جمہوریت کے نام پر پوری قوم کو الو بنایا۔ یہ بھی ان بڑوں کی بڑی غلطی تھی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھی ہمارے دو بڑوں کی ایک بڑی غلطی تھی۔ جس کی سزا دونوں علاقوں کے لوگوں نے برداشت کی۔ یہ پاکستانی تاریخ میں چند بڑوں کی وہ بڑی غلطیاں ہیں جو منظر عام پر موجود ہیں۔

اسی طرح کی غلطیاں ہمارے خاندانوں میں بھی موجود ہیں۔ جہاں روایات چلی آ رہی ہے تمام وسائل کا مالک ایک بڑا ہی ہوتا ہے اور اس کے ایماء پر ہے کہ وہ اپنے چھوٹوں سے کیسے پیش آتا ہے۔ خاندانوں کے ان بڑوں کی ایک بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ سب چھوٹوں کو عقل یا سمجھ بوجھ میں یا تو اپنے برابر سمجھتے ہیں یا پھر بلکل حقیر درمیانی راہ کا مشاہدہ نہ ہونے کے مترادف ہے۔ ان دونوں صورتوں میں یہ بڑے ایک بڑی غلطی کرتے ہیں کیونکہ لیڈر ایک ہوتا ہے سب کے سب لوگ لیڈر نہیں ہوتے۔ ہاں ان بڑوں سے بہت ذہین اور قابل افراد چھوٹوں میں موجود ہوتے ہیں جو اپنے فن کے تو ماہر ہوں گے لیکن اچھے لیڈر ثابت نہیں ہوسکتے۔

اب یہ بڑے یہ لیڈر کچھ ایسی ناقص پالیسیوں پر عمل کرنے لگ جاتے ہیں جو پورے خاندان کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ ان میں سب سے اہم وسائل اور معاش کی تقسیم ہے۔ بڑے یہ غلطی کرتے ہیں کہ ساری زندگی یہی سمجھتے رہتے ہیں کہ جنتے اچھے وہ لیڈر ہیں اتنے ہی اچھے وہ ہر شعبہ زندگی میں بھی ہیں جو کہ نہایت غلط پالیسی ہے۔ آج بھی ایسے بڑے موجود ہے جو اپنے خاندان کے سب وسائل پر قابض ہوکر بیٹھے ہیں اور ان کے خاندان کے لوگ ادب کی خاطر خاموش ہیں لیکن اللہ کے حضور ان کے لیے بد دعاؤں کے علاؤہ کچھ نہیں نکلتا۔

افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بڑے بننے کا جو معیار ہے وہ قابلیت نہیں بلکہ ڈنڈہ چلانے کی صلاحیت ہے۔ معاشرے میں جس کا ڈنڈہ سب سے زیادہ چلتا ہے وہی سب سے بڑا ہے۔ یہاں ڈنڈے کی اصطلاح سے مراد طاقت ہے۔ اب یہاں بھی بڑوں کی بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ چھوٹوں کو سیکھا رہے ہیں کہ ڈنڈہ چلانا سیکھو نہ کہ قابلیت پر توجہ دو۔ اگر ہم تھوڑی سی نظر دو معاشی نظریات پر ڈالیں تو شاید کچھ بہتر طور پر یہ چیز سمجھ سکتے ہیں کہ بڑوں کی بڑی غلطی کیا ہے؟

کمیونزم اور کیپیٹلزم دو معاشی نظریات ہیں۔ کمیونسٹ برابر اور مساوی معاشی وسائل کی تقسیم چاہتے ہیں جبکہ کپیٹلسٹ چاہتے ہیں کہ سرمایہ فرد واحد کی ملکیت ہو۔ اب یہاں چھوٹوں کے لیے کمیونسٹ نظریات ہی سود مند نظر آتے ہیں کیونکہ ان کو برابری دی جائے گی جبکہ کیپیٹلسٹ کیونکہ فرد واحد کی ملکیت ہے تو اس میں کئی چھوٹے بطور غلام شامل ہوں گے۔ میں ہرگز ہرگز کمیونسٹ نظریات کی حمایت نہیں کر رہا لیکن ہمارے معاشرے کے بڑے کیپیٹلسٹ ہیں وہ سرمایہ کی بنیاد پر معاشرے کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ یہ بڑوں کی بڑی غلطی ہے اور ان بڑوں کو پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔

کچھ دن پہلے ایک نیوز چینل پر ایک بڑی کاروباری شخصیت کا انٹرویو سنے کو ملا تو انہوں اس پروگرام میں بتایا کہ 1998ء کے دھماکوں کے بعد ملک پر معاشی پابندیاں تھیں تو انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں سے پاکستان میں انویسٹمنٹ کرائی۔ اب اس واقع کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ریاست جب کمزور ہوتی ہے تو کسی سرمایہ دار کے پاس جاتی ہے مدد کے لیے اور جب یہ سرمایہ دار کوئی غلطی کرتے ہیں تو ریاست ان کو کچھ کہہ نہیں سکتی کیونکہ ریاست کو خطرہ ہوتا ہے کہ اگر یہ سرمایہ دار طبقہ ملک سے باہر چلا گیا تو ہمارا کیا بنے گا۔ یہ بڑوں کی بڑی غلطی ہے کہ ریاست کو اتنا مضبوط نہیں بنایا گیا کہ وہ خود کو کسی فرد واحد کی مدد کے بغیر اپنے قدموں پر کھڑا کر لے۔

یہاں بڑوں کی غلطیاں اس قدر زیادہ ہیں کہ بیان کرتے کرتے کتابوں کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں لیکن اس لکھنے کا کیا فائدہ؟ کیا ہمارے بڑے ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر کان دھریں گے۔ بھائی ہماری تو گھر میں بیوی بچے نہیں سنتے، بڑے کہاں سنیں گے۔

Check Also

Khawaja Saraon Par Tashadud Ke Barhte Waqiat

By Munir Ahmed Khokhar