Video Editing
ویڈیو ایڈیٹنگ
ہم سب من حیث القوم روایتی اخلاقی اقدار سے ہی کوسوں دور ہیں ابھی تک، ڈیجیٹل دور کی اخلاقیات کے تقاضے ہم جانے کب سمجھیں گے۔ فی زمانہ نت نئی ویڈیو ایڈیٹنگ ایپس کی بدولت ہر کوئی اپنے تئیں ویڈیو ایڈیٹر بن چکا ہے۔ کسی کی بھی تصویریں لے کے، ان پہ من پسند گانے، نغمے یا دکھ بھرے کلام شامل کر کے، ویڈیوز بنانا چند منٹ کا کھیل ہے۔ لیکن اس ویڈیو ایڈیٹنگ کا بدترین استعمال اس وقت ہوتا ہے، جب کہیں کسی کی وفات ہو جائے۔ ہمیں اس رویّے کا دو مواقع پہ بہت تلخ تجربہ ہوا۔
میری منجھلی بھابھی کے والد، میرے ماموں دو سال قبل حرکتِ قلب بند ہونے سے بالکل اچانک دنیا سے رخصت ہو گئے۔ بالکل تندرست و توانا تھے۔ اس وقت یہ دونوں میّاں بیوی (میرے بھائی اور بھابھی) شارجہ تھے۔ اور ایک ایسی بیٹی جس کی ماں اس کی پیدائش کے ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہوگئی ہو اور اس کے باپ نے ماں سے بڑھ کے اسے محبّت دی ہو، اس کی پرورش کی ہو، اس کیلئے ماں اور باپ کی صورت وہ تنہا انسان ہو، اگلے دن ان سے بات چیت ہوئی ہو اور آج خبر آ جائے کہ ابّو کی وفات ہوگئی ہے۔ اس کی دلی کیفیّت کیا ہو سکتی ہے، کوئی بھی دردِ دل رکھنے والا انسان بآسانی سمجھ سکتا ہے۔
ہم سب کی نقوی ماموں کی وفات کی خبر کے ساتھ ہی حرا کی فکر سے ہی جان نکلنے لگی کہ اس کیلئے اس کے ابّو ہی اس کی کل کائنات تھے، یہی فکر امّی جی، ابّو جی (اللہ پاک ان کی اور ماموں جی کی قبروں پہ کروووڑہااء رحمتیں نازل فرمائے) کو تکلیف میں مبتلا کئے ہوئے تھی کہ وہ وہاں خاندان کے بغیر کیا کرے گی۔ تمیم اس کو سنبھالنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اسے پاکستان بھیجنے کے انتظامات کیلئے فکرمند تھا۔
اسے فون کیا تو صرف اس کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ ایسے وقت میں کسی خیرخواہ نے ماموں جی کی تصاویر (ماموں جی ابّو جی کی طرح برادری کی معروف ترین شخصیّات میں سے ایک تھے) پہ پیر نصیرالدّین نصیر صاحب کا کلام، سنے کون قصّہء دردِ دل، ایڈٹ کر کے حرا کو بھجوا دیا۔ یہ کلام تو ایسا دل چیرنے والا ہے کہ میں ابّو جی کی بیماری کے دوران بھی کبھی نہیں سن پائی، نہ ہی آج سن سکتی ہوں۔
حرا آج بھی کہتی ہے کہ آپی، مجھے آج بھی سمجھ نہیں آتی کہ اس وقت میرا دل بند کیوں نہیں ہوا، اس کیلئے نقوی ماموں کیا تھے، شاید میں خود بھی نہیں سمجھ سکتی کہ ابّو جی کے ساتھ بہت بہت قریبی تعلّق ہونے کے باوجود، میری زندگی میں ماں موجود تھی اور ہے الحمدللّٰہ ثم الحمدللّٰہ۔ جبکہ اس نے ماں کا لمس تک کبھی محسوس نہیں کیا۔ یہی میرے ساتھ ابّو جی کے بعد ہوا۔
ابّو جی کو گھر سے رخصت کر کے، فون آن کیا ہی تھا کہ اسی کلام کے ساتھ ابّوجی کی تصاویر کے ساتھ ایڈیٹڈ ویڈیو موصول ہوئی۔ اور اس وقت جو حالت ہوئی وہ الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ خدارا، یہ مت کریں، بالکل نہ کریں۔ جب کوئی پیارا دنیا سے جاتا ہے تو دل ویسے ہی تکلیف کی شدّت سے پھٹ رہے ہوتے ہیں۔ خدارا، جلتی پہ تیل مت ڈالا کیجئیے۔ یہ شدّید تکلیف دہ عمل ہے۔ خدارا، اس سے ہر ممکن گریز کریں۔