Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rabiah Fatima Bukhari
  4. Sachi Kahani

Sachi Kahani

سچّی کہانی

یہ سچّی کہانی مجھے میری دوست نے سنائی۔ اسی کی زبانی سنئیے۔۔

سال بھر پہلے میرے پاس ایک بزرگ خاتون آئیں۔ ان دنوں میرے پاس ہاوءس ہیلپ نہیں تھی تو محلّے کی ایک باجی سے میں نے کہہ رکھّا تھا کہ کوئی خاتون خواہش مند ہوں کام کرنے کی تو میرے پاس بھیجئیے گا۔ یہ امّاں جی کم از کم ستّر پچھتّر برس کی ہوں گی۔ سر پہ سفید بال، ہاتھ اور چہرہ جھریوں سے بھرا۔ یہ امّاں جی آئیں اور کہنے لگیں کہ باجی مجھے کام چاہیئے، میں بہت ضرورتمند ہوں۔ آپ کو کام والی کی ضرورت ہے تو مجھے رکھ لیں۔

میں نے انہیں دوٹوک جواب دے دیا، مجھے تو ان کے سفید بالوں اور جھریوں بھرے ہاتھوں سے اس قدر حیا آئی کہ میں کانپ کے رہ گئی۔ ہم تو اپنے گھروں میں سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہماری نانی یا دادی کی عمر کی ایک عورت کام کرے اور ہمارے آگے کھڑی رہے۔ ہم تو اس عمر کے بزرگوں کو ہاتھ دھلا کے بستر پہ کھانا سرو کرتے ہیں۔ لیکن وہ امّاں جی نہایت لجاجت سے بضد ہوگئیں کہ بیٹی! مجھے کام پہ رکھ لو، مجھے بہت ضرورت ہے۔ میں سخت مجبور ہوگئی کہ کروں تو کیا کروں۔ میرا گھر بھی بڑا ہے خیر سے، کام بہت ہوتا ہے کرنے والا، امّاں جی کے بس کا روگ ہےہی نہیں۔

لیکن ان کے لجاجت بھرے لہجے کے آگے میں مجبور ہوگئی۔ وہ گھر آنے لگیں اور میں شرم سے پانی پانی۔ انہیں کھانا کھلاتی، چائے پلاتی لیکن میرے دل میں سکون نہیں تھا۔ ان کی مدد بھی کرواتی لیکن دیگر مصروفیات بھی تھیں۔ دو دن میں امّاں جی بیمار پڑ گئیں۔ اب کے میں نے انہیں بالکل صاف کہہ دیا کہ ماں جی۔۔! میں آپ سے کام نہیں لے سکتی۔ کام تو انہوں نے چھوڑ دیا لیکن اب بھی وہ امّاں جی کبھی کبھار میرے گھر آ جاتی ہیں۔ میں ان کی جتنی ممکن ہو مدد بھی کر دیتی ہوں۔ کھانے کا وقت ہو توکھانا کھلا دیتی ہوں۔ چائے کے وقت پہ چائے۔ ڈھیروووں دعائیں دیتی ہیں۔

اور حیرت کی بات بتاوءں؟ یہ امّاں جی دو بیٹوں کی ماں ہیں لیکن اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کی شادی کیلئے شدید پریشان۔ کوئی وسائل نہیں بن پا رہے۔ بیٹے اس ڈر سے بہن کی شادی کا نام نہیں لیتے کہ خرچہ کرناپڑے گا۔ اور اب وہ بچّی تیس سال سے اوپر کی ہوگئی ہے۔ اور وہ اسے رخصت کرنے کیلئے سخت مجبور اور شدید بےچین کہ مجھے کچھ ہوگیا تو اس کا کیا بنے گا۔۔ میں نے اپنے بھائی سے بات کی۔ اب اس بچّی کیلئے میرا بھائی کچھ دوستوں کی مدد سے بنیادی ضرورت کی اشیاء دے گا ان شاءاللْٰہ۔ کچھ جو ہم سے بن پڑا، ہم کریں گے ان شاءاللہ۔ اور وہ ماں جی بیٹی کو رخصت کر دیں گی اللہ نے چاہا۔

یہ تو تھی کہانی۔۔ آپ سب سے عرض یہ ہے کہ باپ دنیا میں نہ رہیں تو چھوٹی یتیم بہنوں کو اپنی بیٹیوں کی جگہ رکھ کے دیکھا کریں۔ کبھی وہ بھی باپ کی ہتھیلی کا چھالہ تھی جو اب آپ کی دست نگر ہوگئی ہے لیکن آپ کی محبّت، آپ کی کمائی اور آپ کی شفقت کی یہ بھی حقدار ہوتی ہے۔ اور خدارا۔۔ جن کی مائیں زندہ ہیں، انہیں اس نہج پہ ہرگز مت آنے دیں کہ وہ سفید بالوں اور جھریوں زدہ ہاتھوں کے ساتھ کسی کے گھر ملازمت تلاش کرتی پھریں تاکہ اپنی یتیم بیٹی کو اپنی زندگی میں رخصت کر سکیں۔۔

Check Also

Vella Graduate

By Zubair Hafeez