Qissa Hamare Silver Medal Ka
قصّہ ہمارے سلور میڈل کا
پنجاب یونیورسٹی لاہور کے نیو کیمپس میں 2006-2004ء کے سیشن میں، انسٹیٹیوٹ آف کمیونیکیشن سٹڈیز میں، ماسٹرز ڈگری کیلئے داخلہ لیا، جو اس وقت ماس کام ڈیپارٹمنٹ کہلاتا تھا۔ میرے لئے یہ ایک بالکل ہی نیا تجربہ تھا۔ ہماری اپنے شعبے کے چئیرمین جناب مغیث الدّین شیخ صاحب مرحوم و مغفور کے ساتھ پہلی ملاقات میں انہوں نے ہمارے کورس کے ساتھ ہمارا مختصر تعارف کروایا اور ہمیں مختصراً بتایا کہ ہمارا کورس دو سالوں پہ مشتمل ہوگا، ان میں سے پہلا سال سارے طلباء ایک ساتھ پڑھیں گے، ہم چالیس لڑکیوں اور بیس لڑکوں پہ مشتمل کُل ساٹھ طلباء تھے۔
اگلے سال کا چئیرمین صاحب نے یہ بتایا کہ دوسرا سال تخصّص کا ہوگا، جس میں صحافت کے تین الگ شعبوں میں تخصّص کیلئے الگ الگ گروپس میں کلاس کو تقسیم کیا جائے گا۔ ایک گروہ الیکٹرانک میڈیا پڑھے گا، دوسرا پی آر اور ایڈورٹائزمنٹ جبکہ تیسرا گروپ پرنٹ میڈیا تھیوری اینڈ ریسرچ کا ہوگا۔ کون سا بچّہ کس گروپ میں تخصّص کرے گا، یہ طلباء کا ذاتی انتخاب ہوگا۔ مزید انہوں نے یہ فرمایا کہ ہر سال ہم ایک ہی گولڈ اور سلور میڈل دیتے ہیں، سارے طلباء میں سے، لیکن آپ اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ اس سیشن سے ہم آپ کی کلاس کو تین گولڈ اور سلور میڈلز دیں گے کہ یہ تینوں شعبے ایک دوسرے سے بالکل ہی مختلف ہیں تو ان کا آپس میں کوئی مقابلہ بنتا نہیں۔ ان کے بقول انہوں نے یونیورسٹی حکّام تک بات پہنچا دی ہے۔ ہم سب ظاہر ہے کہ بہت خوش ہوئے۔
ایک سال کچھ پڑھتے، لکھتے، کچھ ریسرچ پیپرز مرتّب کرتے، کچھ مستیوں، شرارتوں میں گزر گیا۔ ہمارا چار طلباء کا گروپ تھا، ان میں سے ہم تین پرنٹ میڈیا تھیوری اینڈ ریسرچ میں آ گئے، آئمہ نے الیکٹرانک میڈیا کو چُنا۔ ہمارے گروپ میں ساٹھ میں سے کُل صرف دس طلباء و طالبات تھے اور ہمارے سینئرز کے بقول اس گروپ میں پہلی بار دس طلباء آئے ہیں، ورنہ یہ اتنا مشکل کورس ہے کہ اس میں صرف دو یا تین طلباء ہوتے ہیں ہر سال۔
خیر۔۔ جب پڑھنا شروع کیا تو حقیقتاً ادراک ہوا کہ باقی دو گروپس کے فیلوز تو بہت مزے میں رہتے تھے، اور ہم سب پڑھ پڑھ کے، لکھ لکھ کے ادھ موئے۔ لیکن ہماری خوش قسمتی کہ ہمیں اس دوران محترم جناب مسکین علی حجازی صاحب مرحوم و مغفور، جو صحیح معنوں میں ہمارے استادوں کے استاد تھے کہ ہمارے چئیرمین صاحب بذاتِ خود ان کے شاگردوں میں شمار ہوتے تھے، میڈم ایلزبتھ آئیڈے، جو ایک نارویجن ٹیچر تھیں اور ہمارے شعبے کی visiting faculty کی رکن تھیں اور نہایت محنتی اور مستعد استاد، محترم سہیل وڑائچ صاحب جو کسی تعارف کے محتاج نہیں، وقار ملک صاحب جیسے قابل ترین اساتذہ سے تعلّم کا موقع ملا۔
محنت سے پڑھائی کرتے یہ سال بھی گزر گیا، اپنے مقالے کیلئے دن رات ایک کرکے محنت کی۔ خوب محنت، اساتذہ کی شفقت اور والدین کی دعاوءں کی بدولت اپنے گروپ میں 3.72 CGPA کے ساتھ دوسری پوزیشن لی جبکہ پہلی پوزیشن میری دوست ثمینہ رمضان، جو آج کل ثمینہ پاشا کے نام سے جی این این نیوز کے ساتھ بطورِ نیوز اینکر منسلک ہے، نے محض 0.01 کے فرق کے ساتھ 3.73 CGPA لے کے حاصل کی اور ہم دونوں بہت خوش کہ دونوں سہیلیاں پہلی اور دوسری پوزیشن پہ، مجموعی طور پہ کلاس میں بھی ہم دونوں ٹاپ فائیو میں تھیں۔ اب ہوا یہ کہ رزلٹ کا اعلان ہونے اور ہمارے کوونوکیشن کے انعقاد میں تقریباً تین، ساڑھے تین سال کا وقفہ پڑ گیا اور اس دوران میری شادی بھی ہوگئی اور میرا بڑا بیٹا کوونووکیشن کے وقت چھ ماہ کا تھا۔ اتنے چھوٹے بچّے کو گھر چھوڑ کے جانا بھی ایک مسئلہ اور چھوٹے بچّے ساتھ لانے کی اجازت نہیں تھی۔
جس دن فل ڈریس ریہرسل تھی، اس دن تو کسی طرح موسٰی کو اس کی دادی امّاں کے پاس چھوڑ کے چلی گئی۔ لیکن وہاں ایک روح فرسا خبر ہم سب کی منتظر تھی، ہم دونوں جو میڈلز کے انتظار میں گزشتہ تین سال خواب دیکھتی رہیں، ہمیں بتایا گیا کہ صرف بحیثیّت مجموعی اوّل پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علم کو ہی گولڈ میڈل ملے گا، دل کے ارماں آنسوؤں میں بہنا کیسا ہوتا ہے، ہم دونوں کو ہی خوب تجربہ ہوا، اور ہم دونوں نے احتجاجاً کوونووکیشن میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کچھ اگلے دن موسٰی بیمار بھی ہوگیا تو میں کوونووکیشن میں شرکت نہیں کر سکی۔ ہمارے احتجاج سے یونیورسٹی انتظامیہ کو تو کیا فرق پڑنا تھا، البتّہ ہمیں اس ڈگری کیلئے جو ہمیں یونیورسٹی والے عزّت سے سٹیج پہ بلا کے دینے والے تھے، اس کے حصول کیلئے اگلے کئی سال خجلی اور خواری اٹھانا پڑی۔ یوں ہماری میڈل کہانی اختتام پذیر ہوئی۔۔