Izhar e Muhabbat
اظہار محبت
محبوب سے ملنے کا شوق اتنا تھا کہ سرخوشی ہر سر مو سے ٹپکی پڑتی تھی۔ زیر لب کچھ گنگناہٹ تھی کان لگا کے سنو تو درود پاک کا ردھم محسوس ہوتا تھا۔ لیکن کیا محبوب کے سامنے جانے کی خوشی میں کوئی انسان درود بھی پڑھتا ہے۔ نئے کپڑے بہترین طور سے استری شدہ کلف زدہ ڈیزائنر ویئر سوٹ، جس پر ابرق کی چمک کے ساتھ بڑا سا خوشرنگ ڈوپٹہ تھا۔ سکون سے غسل کیا۔ بال ہیر ڈرائر سے خشک کیے، سلجھائے، سنوارے خود کو آئینے میں دیکھتے ہوئے۔
اپنے آپ کی نوک پلک یوں سنواری جیسے محبوب کی نظر سے خود کو دیکھتی ہو کہ کوئی کمی نہ رہ جائے۔ تیاری میں وقار ایسا ہو کہ محبوب کے سامنے پیش ہوتے جھجھک نہ رہے۔ بھینی بھینی خوشبو لگائی، جس کی خوشبو سے اس کی سرشاری میں اضافہ ہوا۔ آج تو اس کی چھب ہی نرالی تھی یا شاید میں نے ہی بغور مشاہدہ آج کیا تھا۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے کریم لگائی، کاجل ڈالا، ہلکی گلابی لپ اسٹک لگائی۔
پھر آئینے کے سامنے سے ہٹی۔ بیڈ سائڈ پر پھیلا، بڑا سا ڈوپٹہ سلیقے سے سر پر اس طرح اوڑھا کہ مکمل ملفوف ہوگئی۔ مجھے لگا کہ بس اب محبوب کی پکار کسی بھی لمحے آئے گی اور وہ اس سے ملنے کے لیے ہوا کے دوش پر سوار اڑتی چلی جائے گی۔ گویا پیر زمین پر دھرنے کی دیر بھی گوارا نہ ہو، بس بھاگم بھاگ منتظر محبوب کی گاڑی میں سوار ہو جائے۔ اسی لمحے نزدیکی مسجد سے خوش الحان مؤذن کی پرسوز آواز میں اللہ اکبر کی پکار بلند ہوئی۔
اس کے چہرے کی چمک جیسے کئی گنا بڑھ گئی۔ محبوب کی پکار کے لیے وہ وقت رہتے تیار ہو چکی تھی۔ کامل محویت کے ساتھ محبوب کی پکار سنی۔ مناسب مقامات پر زیر لب کچھ کہتی۔ پکار کے آخری کلمات کی گونج ابھی باقی تھی کہ وہ اٹھی، خوبصورت سادہ اور پروقار، جاءنماز کھولا۔ محبوب کے گھر کی طرف رخ کیا۔ جاءنماز بچھایا اور بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے ہوئے دایاں پیر آگے بڑھا کر اپنے محبوب کے روبرو پیش ہوگئی۔
کیا شوق تھا کیا وارفتگی تھی، جو اس کے ہر انداز سے جھلکتی تھی۔ کیا دبی دبی سرگوشیاں تھیں، جو وہ اپنے محبوب کے سامنے زیر لب دہراتی تھی۔ آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر سکون سے وہ اپنے کلمات دہراتی اس یقین کے ساتھ کہ اس کا محبوب سن رہا ہے۔ اس کا محبوب، اس کا معبود اس کے سامنے موجود اسے دیکھ رہا ہے، اسے سن رہا ہے۔ ہر حرکت میں بے ساختگی اور وقار، عبدیت و نیاز مندی کی جھلک تھی۔
قربان ہو جانے کی ادا تھی۔ اس لمحے دنیا محو ہو چکی تھی۔ وقت تھم چکا تھا۔ عبد و معبود کے راز و نیاز چل رہے تھے، سوال پیش کیے جا رہے تھے۔ جواب سکون بن کے قلب پر نزول کر رہے تھے۔ چند ساعتیں بیتیں یا چند زمانے کہ جن کے بعد عبد نے سلام پھیرا اور دنیا میں واپس آئی۔ محبوب کی پاکی بیان کی محبوب کے محبوب ص پر درود و سلام بھیجا اور پھر سرگوشیوں میں چند دل کی انکہی باتیں معبود کے سامنے پیش کیں۔
بند آنکھوں سے کچھ موتی ٹوٹے اور قلب کو بھگوتے اندر کی زمین میں جذب ہو گئے۔ آخر میں پھر صلوات و سلام پیش کر کے دربار محبوب سے رخ موڑے بغیر بایاں پاؤں بڑھا کر باہر نکل آئی۔ کیا دنیا کا کوئی فانی محبوب اس محبت کا اس سے زیادہ حقدار ہے۔ جیسی عبد کو اپنے معبود سے ہونی چاہیے۔ پھر کیوں ہم سجے سنورے بنا رب کے سامنے اور سج بن کر اس کے بندے کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ چلیں آج سے نماز میں پیش ہونے کے لیے اپنے رب کو اچھے لگنے کے لیے سجیں۔ آئیں اپنی عبادت سنواریں۔