Abbu Ji Ki Yaad Aa Gayi
ابّو جی کی یاد آ گئی
کل اداکار افضال احمد مرحوم کی بسترِ مرگ کی تصویریں دیکھ کے مجھے ابّو جی کے آخری ماہ کی ان کی حالت یاد آ گئی۔ ابّو جی بالکل اسی طرح ایک مشتِ استخوان بن چکے تھے۔ بہت کمزور، بہت ہی کمزور۔ آج ہی کے دن گزشتہ برس، ابّو جی اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ ہم سب کو عالمِ بےبسی میں چھوڑ کے، خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔
ابّو جی کی بیماری کے دوران اور خاص طور پہ کینسر کی بالکل ابتدائی تشخیص کے چند ماہ اور زندگی کے آخری چند مہینوں کی اپنی بےبسی اور ابّو جی کی تکلیف کا ایک ایک پل جیسے دل پہ نقش ہے۔ لیکن ان شدّید تکلیف دہ یادوں میں ایک پہلو جو کل سے دل میں اطمینان کی لہر دوڑا رہا ہے۔ وہ ابّو جی کی ساری اولاد کی فرمانبرداری اور ان کی تکلیف کے ایک ایک پل میں ان کے آگے دست بستہ کھڑے رہنا ہے۔
ہم بیٹے بیٹیاں تو ایک طرف، ہماری خوش نصیبی کہ ابّو جی کی بہوئیں اور دونوں داماد بھی بیٹوں اور بیٹیوں کی طرح آخری وقت تک ساتھ ساتھ رہے۔ پردیس میں بسی اولاد اکثر ایسے موقعوں پہ محروم ہی رہ جاتی ہے لیکن تمیم اور حرا آخری چار ماہ دن رات ابّو جی کے ساتھ ساتھ موجود رہے۔ آخری تقریباً بیس پچّیس دن ابّو جی ساری ساری رات بیٹھ کے گزارتے کہ نیند نہیں آتی تھی۔
اور ساری رات امّی جی، کبھی ایک بیٹا، کبھی دوسرا اور کبھی تیسرا، مسلسل ابّو جی کے پاس رہتے۔ بہوئیں ایک آواز پہ کھڑی۔ وسیم اس سے پہلے پندرہ دن فیملی کے ساتھ ابّو جی کے ساتھ دن رات خدمت میں گزار کے انہی دنوں واپس گیا تھا۔ ہم بیٹیاں بھی پاس ہی تھیں۔ دن رات اپنے گھروں میں بھی اسی کوشش میں گزرتے کہ جلدی سے جلدی گھر کے کام نمٹیں اور ابّو جی کے پاس پہنچ سکیں۔
آخری شاید مہینہ بھر ابّو جی اپنے اعضاء کو اپنے طور پہ حرکت بھی نہیں دے سکتے تھے اور ایک ایک منٹ بعد کبھی پہلو بدلواتے، کبھی ٹانگ اٹھاؤ، کبھی پیر سیدھا کرو، کبھی کمبل ڈالو، کبھی ہیٹر لگاؤ، کبھی پنکھا۔ مطلب ایک ایک لمحہ ان کے ساتھ کھڑے رہنا ہوتا اور الحمدللّٰہ ابّو جی کسی ایک کو آواز دیتے تو ہم سبھی کھڑے ہو جاتے۔ اور آواز دینے کی نوبت کبھی آئی ہی نہیں کہ ہم سب ہمہ وقت ابّو جی کے ساتھ ہی ہوتے تھے۔
اور یہ سب اللہ پاک کے خاص فضل و کرم کے بعد جانتے ہیں کیوں تھا؟ ابّو جی اور امّی جی والدین کی فرمانبرداری اور اطاعت کا استعارہ تھے۔ چاہے ابّو جی کے والدین تھے یا امّی جی کے، ان دونوں نے فرمانبرداری کی حد ہی کی ہمیشہ۔ اور کوئی کچھ بھی کہے، میں تو یہ سمجھتی ہوں کہ والدین کے ساتھ ہم جو بھی برتاؤ کر رہے ہوتے ہیں، ہم اپنے ہاتھوں سے اپنی تقدیر خود رقم کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے، جس کا اجر یا سزا، ہم نے اسی دنیا میں پا کے جانا ہے۔ اپنے اپنے والدین کی قدر کریں اور آج کی دعاؤں میں ابّو جی کو ضرور ضرور یاد رکھئیے گا۔