Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qasim Asif Jami
  4. Muddate Ba Gul Nashistam

Muddate Ba Gul Nashistam

مدتے باگُل نشستم

(ایک زمانہ مَیں بھی پھول کے ساتھ بیٹھا ہوں) کہتے ہیں کہ نام کا اثر شخصیت پر بھی نمایاں ہوتا ہے اس کی خوبصورت مثال ہمارے بڑے استاذ جی مفتی گل احمد خان عتیقی صاحب تھے، جو اپنے کردار، اقوال اور شخصیت کے جمیع احوال کے حوالے سے پھولوں کے ایک خوبصورت گلدستے کی طرح مزین نظر آتے تھے!

آپ گزشتہ ہفتے اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے!

"انا للہ وانا الیہ راجعون"

آپکی نمازِ جنازہ لاہور، حضرت علی بن عثمان المعروف داتا گنج بخشؒ کے دربار کے صحن میں آپکے جلیل القدر شاگرد استاذ حافظ عبد الستار سعیدی (دامت فیوضھم) کی امامت میں ادا کی گئی جس میں چاہنے والے، شرفِ تلمذ حاصل کرنے والے اور ملک کے بڑے نامور علماء اور مشائخ بھی شرکت کرنا اپنے لئے باعث رحمت سمجھ رہے تھے۔

کشمیر سے تعلق رکھنے والے، زندہ و جاوید فکرکے مالک، تدریس اور تصنیف کو عشق کی حد تک چاہنے والے بااثر، شہرت و مقبولیت سے جان چھڑانے والے اِنتہائی عاجز اور مضبوط شخص۔۔

بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جب اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو کوئی ملال اور پچھتاوا انہیں نہیں ستاتا، نہ کوئی ستائش، نہ کوئی بڑی خواہش، نہ مال و منال کی جمع، نہ حشمت و استقبال کا طمع۔

بس اپنے کام اور مشن سے دیوانگی کی حد تک اخلاص اور محبت کی عمدہ مثال جو بعد والوں کے لئے بہترین مشعلِ راہ۔۔

استاذ جی عتیقی صاحب کی شخصیت ایسی ہی مسحور کن اور دل آویز تھی کہ پاس بیٹھنے والے اپنے آپ کو بالکل ویسا محسوس کرتے جیسے کندھوں پہ پرندے بیٹھے ہوں اور حرکت سے بھی وہ کہیں اُڑ نہ جائیں!

ایک معتدل لیکن اپنے عقائد و نظریات میں مضبوط عالم و مفتی جن کی کتب اور شاگردوں کی فہرست اتنی طویل اور عمدہ ہے کہ تحریر الگ سے آغاز چاہے!

بات مذہبی و سیاسی تنظیمات کی ہو یا ملکی تاریخ میں آتے پیچ وتاب کی، ہمیشہ نظریے اور عقیدے کے لئے ایک مثالی کردار ادا فرمایا!

55 سال کے لگ بھگ تدریس فرمائی اور تشنگانِ علوم و معارف کو محبت اور عقیدت کے جام پلائے، حافظہ اور یاداشت اس قدر بہترین کہ اکثر شاگردوں کے نام، علاقے اور مصروفیات بالکل بجا حلقۂ ذہن میں ابھی تک محفوظ۔۔ بخاری شریف کی تدریس کے دوران اکثر یہ کہا کرتے کہ

ہوتا رہے چرچا تیرے قیل و قال کا

ہوتا رہے تذکرہ تیرے حُسن و جمال کا (ﷺ)

بچپن میں اپنے دو دوستوں کے ساتھ وعدہ کیا کہ کبھی شادی نہیں کریں گے اور تاعمر دین کی خدمت میں لگے رہیں گے، آپ نے اور ایک دوسرے ساتھی نے شادی کرلی جبکہ ایک بزرگ اسی وعدے کے ساتھ چل دیے!

دیر سے شادی کی وجہ سے اولاد ابھی تعلیمی مراحل سے گزر رہی ہے جبکہ خود داری اتنی بلند کہ قرض لے لیتے لیکن کبھی کسی کے سامنے طلب و سوال تک نہ کرتے اور حالات ایسے کہ 90 سال کے قریب عمر تک بھی ذاتی رہائش گاہ نہ بنا سکے اور تادمِ آخر کرائے کے گھر میں مقیم رہے!

علالت کے دنوں میں عیادت کے لئے حاضر ہوئے تو بھی اس قدر مسکراہٹ اور زندہ دلی سے پیش آتے کہ جیسے کبھی مرض ہو ہی نہ۔۔

وفات سے ایک دن قبل ہی ایک بڑے مشفق اور قریبی استاذ مکرم کے ساتھ آپ کے بارے میں گفتگو ہوئی اور یہ جانا کہ ترکے میں علم و فضل کے علاوہ کچھ نہیں!

یہاں المیے کے طور پر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ اپنا سب کچھ ایک شعبے اور دین کو دینے والے بزرگ استاذ کے ورثاء اور وابستگان کیا سوچتے ہوں گے کہ دنیا میں کیا حاصل کیا؟ آسائشوں کی دوڑ اور چکا چوند روشنی کے سحر میں گُم ہوتے بیٹوں کے خیال اس جانب بھی جاتے ہوں گے کہ ہمارے لئے کیا چھوڑا اور اِن خدمات کے عوض ہزاروں شاگردوں نے کیا پیش کیا؟

یہ صورتحال اس شعبے کے مستقبل کے لمحہ فکریہ تو ہے ہی لیکن اس بات کی جانب بھی توجہ جانی چاہیے کہ اس دنیا میں اصل شے اطمینان اور سکون ہے اور اس سکون اور کامیابی و ترقی کے لئے ہر شخص نے الگ الگ حدود اور دائرے متعین کررکھے ہیں اور کم ہی افراد ایسے ہوتے ہیں جو اس لذت سے آشنا ٹھہرتے ہیں۔

لیکن استاذ صاحب ایسی شخصیت تھے کہ آخری لمحے تک اطمینان، سکون، مسکراہٹ اور زندہ دلی کےاظہار کے ساتھ ہمیشہ کے لئے ایسے چل دیے کہ مجھ جیسے کئی چاہنے والے اذیت سے بہت زیادہ اور موت سے تھوڑی کم والی کیفیت میں محوِ حیرت ہیں!

اللہ کریم درجات بلند کرے اور آپکے اطمینان، سکون اور علم کے فیضان سے ہمیں بھی حصہ نصیب ہو۔۔!

Check Also

Ye Dunya Magar Bohat Zalim Hai

By Nusrat Javed