Hub Sub Manto Hain
ہم سب منٹو ہیں

یہ معاشرہ عجیب ہے، یہاں سچ کہنے والا مجرم ہے، خاموش رہنے والا صالح کہلاتا ہے۔ سعادت حسن منٹو نے جب یہ کہا تھا کہ "اگر آپ میرے افسانے برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے" تو شاید اُس وقت بھی وہ اسی زمین پر سانس لینے والے اُن لوگوں کی نفسیات کو سمجھ چکے تھے جو آج بھی "سچ" سے خائف ہیں۔ منٹو نے قلم سے وہ آئینہ بنایا جس میں ہم سب کے چہرے عریاں نظر آتے ہیں، یہ وہ منٹوی فلسفہ ہے جو معاشرے کے اس مکروہ سچ کو بے نقاب کرتا ہے جسے ہم ہر صبح اپنی جھوٹی شرافت کی چادر تلے چھپا دیتے ہیں۔
منٹو نے اپنی تحریروں میں ہمیشہ اس انسان کی عکاسی کی جو جھوٹے اخلاقی معیاروں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، اس کا فلسفہ سادہ مگر تلخ تھا۔ انسان کی اصلیت اس کے ظاہر کردہ کردار سے کہیں زیادہ سچی ہوتی ہے، خواہ وہ کتنی ہی غلیظ ہو۔ وہ افسانے نیم کے پتے کڑوے سہی، مگر خون کو صاف ضرور کرتے ہیں! منٹو کی یہ میراث آج بھی ہر اس فن پارے میں زندہ ہے جو سچ بولنے کی جرات رکھتا ہے۔
اسی فلسفے کی تازہ جھلک ہمیں حال ہی میں نشر ہونے والے میگا بجٹ ڈرامہ سیریل "میں منٹو نہیں ہوں" میں نظر آتی ہے، جسے معروف رائٹر خلیل الرحمٰن قمر صاحب نے اپنے مخصوص بے باک اور جاندار اسلوب میں رقم کیا ہے۔ ہدایت کاری کے فرائض ندیم بیگ صاحب نے سنبھالے ہیں اور اسے سکس سگما پلس کے تحت پروڈیوس کیا گیا ہے۔ ڈرامے کا عنوان بذاتِ خود ایک چیلنج ہے، ایک سوال ہے کہ کیا آج کے دور میں منٹو جیسا ہونا ممکن ہے؟ یہ کہانی 70 سالہ خاندانی دشمنی اور اس کے تلخ نتائج کے گرد گھومتی ہے، مگر اس کی جڑیں ان ہی سچائیوں میں پیوست ہیں جنہیں منٹو نے اپنے افسانوں میں کریدا۔
خلیل الرحمٰن قمر صاحب کے بے مثل اور لاجواب ڈائیلاگز اس ڈرامے کی روح ہیں۔ ان کا قلم ہمیشہ خواتین کے کرداروں کو ایک نئی اونچائی دیتا ہے یا پھر زمین بوس کر دیتا ہے، درمیان کی کوئی راہ نہیں۔ اس ڈرامے میں بھی ان کی قلم کی یہ قوت نمایاں ہے جو ہر کردار کی اندرونی کشمکش اور جذبات کی گہرائی کو پوری شدت سے بیان کرتی ہے۔ میرا سب سے پسندیدہ ترین جملہ کو شاید ہمیشہ یاد رہے کہ "محبوب سے جب نفرت ہو جائے تو محبت سے زیادہ ہوجاتی ہے"۔
ڈرامے کا سب سے اہم فکری موضوع یہ ہے کہ محبت، عزت اور جان بچانے میں کسے ترجیح دی جائے گی؟ یہ سوال معاشرے کو گہری سوچ میں مبتلا کرتا ہے۔ یہ موضوع اس سچائی کو کھول کر رکھ دیتا ہے کہ جب محبت اور عزت پر جان کا خطرہ ہو تو فرد کس انتہا تک جا سکتا ہے۔ یہ وہی منٹو والا بے باک پن ہے جو ہمارے سامنے ایک مشکل اخلاقی گتھی رکھ دیتا ہے کہ آخر اب کیا کیا جائے۔
اس سیریل کی کامیابی میں اس کی شاندار کاسٹ کی پرفارمنس کا بڑا ہاتھ ہے۔
صائمہ نور صاحبہ کو ہم بچپن میں اپنے گھر کے وی سی آر پہ بڑے اہتمام سے دیکھا کرتے تھے انکے متعلق یادوں اور عقیدت کی ایک طویل فہرست ہے جو پھر کبھی سہی۔ اس میں صائمہ صاحبہ (بطور ثریا) نے ایک منفرد اور مضبوط پھوپھو کا کردار ادا کیا ہے، جو اپنے شوہر اور بیٹے کے قتل کا بدلہ لینے کی خواہش تو رکھتی ہے اور اپنی بھتیجی کے ساتھ ہر قدم پر کھڑی ہوتی ہے لیکن اپنوں کی زندگی بچانے کے لئے معاملہ اللہ کی ذات پہ چھوڑ دیتی ہے۔
فلم اسٹار صائمہ نور نے طویل عرصے بعد ایک ایسا کردار ادا کیا ہے جسے بے حد سراہا جارہا ہے اسکی وجہ انکا تجربہ، نفاست، ٹھہراؤ، ادائیں اور شاندار کارکردگی ہے، مزید یہ کہ خلیل الرحمٰن قمر صاحب نے بھی ان کی اداکاری کی تعریف کھل کے کی ہے۔
میرے لیے دوسرا معتبر اور جاندار کردار صنم سعید (بطور مِس ماریہ) نے ایک پروفیسر کی کلیگ کی حیثیت سے کیا ہے جو منٹو کو پسند کرتی ہیں اور اپنی موجودگی کو نہایت خوبصورتی اور پختگی سے محسوس کرواتی چلی گئی ہیں۔
اگرچہ ڈرامے کی کاسٹ میں سجل علی، ہمایوں سعید، دو سینئر صبائیں، مسعود صاحب اور آصف رضا میر شامل ہیں، لیکن میرے خیال میں جن دیگر اہم کرداروں کا ذکر ہے، مثلاً دراب خلیل (میکال حضرت) کی پرفارمنس بھی مجموعی طور پر ڈرامے کو ایک جاندار تاثر دے رہی ہے اور ان کی اداکاری سمیت انکا محبت کے لئے قربانی دینا اور محبوبہ کو اسکی رضا پہ چھوڑ دینے کا حوصلہ بھی اس سارے منظر نامے میں غیر معمولی سبق ہے۔
ڈرامے کے انجام میں افرا کے والد اپنی بیٹی کی پراسرار موت کے بدلے میں قانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے انتقاماً اذان سمیع (فرہاد) کوقتل کر دیتے ہیں اور یہ منظر ہمارے معاشرے کے ایک بہت بڑے المیے کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ وہی تلخ حقیقت ہے جسے منٹو دکھانا چاہتا تھا: جب ادارے (عدالت، پولیس، قانون) اپنا کام انصاف کے ساتھ نہیں کرتے اور طاقتور کے سامنے جھک جاتے ہیں، تو ایک مجبور اور شکست خوردہ فرد خود کو بے بس محسوس کرتا ہے اور پھر اسے اپنے ہاتھ میں قانون لینا پڑتا ہے!
یہ انتقام قانون کی ناکامی کا اعلان ہوتا ہے، جو دکھاتا ہے کہ "اصل انصاف" کے حصول میں فرد کو کتنا تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ منٹو بھی ایسے ہی حالات کی عکاسی کرتے تھے جہاں انسان مجبور ہوکر معاشرے کی حدود کو توڑتا ہے، کیونکہ اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
پھر طالبہ محمل اور منٹو سر کی شادی کے شادیانے سے اسکا اختتامی سین نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔
اس میں بھی سوسائٹی کے اس بے تکے معیار کو موضوع بنایا گیا ہے جس میں استاد اور شاگرد آپس میں محبت یا شادی نہیں کرسکتے، حالانکہ نہ اسکی کوئی قانونی جڑیں مضبوط ہیں اور نہ دین میں کوئی قدغن ہے ہاں سماجیات اور اخلاقیات اس میں کس قدر قاضی ہیں وہ منٹو صاحب بہت پہلے بتا چکے ہیں!
پس "میں منٹو نہیں ہوں" صرف ایک ڈرامہ نہیں، بلکہ منٹو کے نظریات کی ایک جدید تعبیر ہے جو معاشرے کی اس سچائی کی نشاندہی کرتا ہے جسے کوئی سننا نہیں چاہتا۔ منٹو کہا کرتے تھے کہ وہ زہر اگلتے ہیں کیونکہ ماحول کا زہر ان کے اندر سرایت کر گیا ہے۔ اسی طرح خلیل الرحمٰن قمر صاحب کی یہ تحریر اور ندیم بیگ صاحب کی ہدایات ہمیں آج کے معاشرتی زہر سے آگاہ کرتی ہیں اور ثابت کرتی ہیں کہ جب تک انسانوں میں کمزوریاں موجود ہیں اور جب تک انصاف کا ترازو ڈانواں ڈول رہے گا، ہم سب کسی نہ کسی شکل میں منٹو ہی رہیں گے۔ وہ انسان جو اپنے ارد گرد کے کھوکھلے پن کو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔
آخر میں یہی کہنا مناسب ہے کہ خلیل الرحمٰن قمر کا یہ ڈرامہ صرف ایک فکشن نہیں، یہ سماج کے ضمیر پر رکھا وہ آئینہ ہے جس میں موجود مختلف النوع موضوعات کو گہرائی سے دیکھنے کی ہمت سب کے پاس نہیں۔
منٹو کہتا تھا: "میں منٹو نہیں ہوں، میں وہ ہوں جو تم سب کے اندر چھپا بیٹھا ہے"۔
اور آج کے اس دورِ فریب میں، اپنی فطرت، باطنی جذبات اور احساسات کے کھل کے اظہار کے بجائے منہ چھپاتے، دوسروں کے لئے قاضی اور جلاد بنتے ہوئے ہمارے رویے یہ ثابت کرتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں "ہم سب منٹو ہیں"۔

