Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qamar Akash
  4. Pakistani Passport Mein Tabdeeli

Pakistani Passport Mein Tabdeeli

پاکستانی پاسپورٹ میں تبدیلی‎

اقبال نے کہا تھا؎

ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر

حکومت پاکستان پاسپورٹ میں کچھ تبدیلیاں کر رہی ہے۔ جان کر اچھا لگا چلو کچھ تو ہے جو بند کرنے کی بجائے بہتر کرنے کی طرف دھیان گیا۔ اس سے قبل جس چیز میں مسئلہ پایا جاتا حکومت اسے بند کر دیتی۔ بہتر کرنا زیادہ ضروری ہوتا ہے جبکہ

اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

کیا لگتا ہے! پاسپورٹ میں ڈیزائن تبدیل کرنے یا نئے سکیورٹی فیچر شامل کرنے سے پاسپورٹ کی حیثیت پر فرق پڑے گا؟ پاسپورٹ انڈیکس کی ویب رپوٹ کے مطابق پاکستانی صرف نو ممالک میں بغیر ویزہ سفر کر سکتے ہیں اور جن ممالک میں پہنچ کر ویزہ طلب کر سکتےہیں وہ ملا کر کل 33 ممالک ہیں اور یہ سب وہ ممالک ہیں قطر کے علاوہ جہاں آج بھی آدم خور قبائل آباد ہیں اور انسانی تاریخ وہاں جا کر لگتا ہے جیسے ابھی بھی پتھر کے دور میں کہیں اٹکی ہوئی ہے۔ یہ کُل ملا کر دنیا کا 23 فیصد حصہ بنتا ہے جہاں تک ہمیں رسائی کاغذات میں نصیب ہے اور یہ ملک 2023 کی مردم شماری کے مطابق 24 کروڑ سے زائد لوگوں پر مشتمل ہے۔ کسی بھی ملک کے پاسپورٹ کی حیثیت کیوں کم یا زیادہ ہوتی ہے۔ اس پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔

تو بین الاقوامی تعلقات: اس میں سب اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اسرائیل کو ہم ملک ہی تسلیم نہیں کرتے، افغانستان سے ہمارے تعلقات کیسے تھے وہ ہمارے کرکٹ میچ کے مقابلوں میں نفرت انگیزی سے بھی لوگ اندازہ لگا رہے تھے۔ اب تو کھلم کھلا جنگ شروع ہو چکی ہے۔ بھارت سے کچھ دن قبل ہی زور آزمائی کرکے دیکھی ایک چونچ اور ایک دم ابھی تک غائب ہے۔ روس کو توڑنے میں ہمارا جو کردار رہا ہے، حافظ سعید جیسے نان سٹیٹ ایکٹرز بڑے فخر سے اپنے بیانات میں اس کا کریڈٹ لیتے رہے ہیں۔

معاشی حیثیت: امیر یا مستحکم معیشت والے ممالک کے شہریوں سے غیر قانونی ہجرت یا پناہ گزینی کا خطرہ کم سمجھا جاتا ہے۔ جیسے جرمنی اور کینیڈا کے لوگوں کو بہت سارے ممالک میں بغیر ویزہ جانے کی اجازت ہے کیونکہ ان اپنے ممالک میں جان، مال یا حقوق کے مسائل نہیں ہوتے۔ اس ضمن میں بھی ہم جس حالت کو پہنچ چکے ہیں اس پر بات کرتے ہوئے رونا آتا ہے۔ میں نے بہت سے لوگوں کو روزگار نہ ہونے کی وجہ سے دیگر ممالک میں یہ کہہ کر پناہ لیتے دیکھا ہے کہ ہم اب احمدی ہو گئے ہیں اس لئے جان کو خطرہ ہے اور پناہ کے کاغذات بنتے ہی دوبارہ مسلمان ہو جاتے ہیں۔

سکیورٹی اور دہشت گردی: کا خطرہ ہوتا بھی ایک اہم وجہ ہےجس میں ہم یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ پوری دنیا چھوڑ کر اسامہ بن لادن ہمارے ایبٹ آباد سے نکلا جسے آرمی نے خود پناہ دے رکھی تھی اور جب پکڑے گئی تو کہا ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا جس آرمی کے بندے نے امریکہ کو یہ خبر دی تھی اس کی اپنی جان کو اتنا خطرہ ہوا کہ اسے ملک چھوڑ کر امریکہ سیٹلمنٹ لینی پڑی۔ جب کہ اسامہ سب کے لئے مشترکہ دہشت گرد تھا۔ بمبئی حملے، اجمل قصاب، افغان جنگ میں مفت کی سول انتہا پسند آرمی تیار کرکے فراہم کرنے کے قصے اب چھپے نہیں رہے۔

چوتھا سبب ہے ملک کا تشخص۔ وہ بھی مذکورہ بالا اسباب کی وجہ سے دنیا میں بہت ہی خراب ہوا۔ ہماری ملالہ یوسفزئی پوری دنیا میں جو پاکستان کا نام روشن کر رہی ہے اس کی مثال بھی روز روشن کی طرح ہے۔ ہماری عدالتوں میں انصاف کا معیار آخری درجوں میں گنا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت صرف نام کو ہے تاکہ وقت پڑنے پر قرضے لینے میں سہولت رہے۔ کیونکہ مارشل لاء واضح طور پر لگا دیا جائے تو کوئی بھی قرض دینے کے لئے راضی نہیں ہوتا۔ ملک کا بیشتر بجٹ لڑائی جھگڑوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ تعلیم پر جان بوجھ کر خرچ نہیں کیا جاتا کہ لوگ باشعور ہو گئے تو سوال کریں گے۔

سوشل میڈیا ایک آزاد راہ تھی رائے دینے کو اس پر بھی فائر وال لا کر نصب کر دیا گیا ہے۔ ہمیں لگتا ہے یہ سب کوئی نہیں دیکھ رہا ہوگا جب کہ ہم پوری دنیا کو نظر آرہے ہیں۔ ہر ایک چیز ریکارڈ ہوتی ہے اور سال کے آخر میں پوری دنیا کے ممالک کی رپوٹس مرتب ہو کر ان کی حیثیت کا تعین ہوتا ہےیہاں تک کہ سب سے خوش رہنے والے ممالک کی بھی فہرست تیار کی جاتی ہے۔ حالیہ رپوٹ میں سب سے خوش ملک فن لینڈ اور پاکستان کا نمبر 109 میں آیا ہے۔ یہ درجہ بندی 147 ممالک کی بنائی گئی تھی۔

اگر ہمیں واقعی کچھ تبدیلی لانی ہے تو جیسے حکومت نے انتہا پسندی کو لے کر اپنا موقف تبدیلی کیا ہے اور لبیک والوں کی شوخی کو اس بار سختی سے نمٹایا ہے اور اس بات کا ادراک بھی واضح کیا ہے کہ یہ ایک جماعت نہیں ایک نظریہ کا مسئلہ ہے۔ اس سے لگ رہا ہے کہ ریاست اب اپنے تشخص کو لے کر مسائل کی درست شناخت کر رہی ہے۔ ظاہر ہے اس کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں کہ ہم مذہبی تشخص میں کمی لاتے ہوئے بتدریج ملک سے مذہب کو مکمل معطل کر دیں۔ ہماری بنیادیں مذہبی تھی اس لئے کرنا مشکل ہے مگر ہمارے مسائل بھی اسی نسبت سے بہت بڑے ہیں اس لئےہمیں اتنے ہی بڑے علاج کی بھی ضرورت ہے کیونکہ اقبال نے کہا تھا؎

ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail