Tuesday, 18 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Nayyar
  4. Takhleeq Kar Ka Almiya Aur Mafrooza e Ruswai

Takhleeq Kar Ka Almiya Aur Mafrooza e Ruswai

تخلیق کار کا المیہ اور مفروضہ رسوائی

کچھ المیے عام انسانی زندگی کے ہیں۔ کچھ کا تعلق انسانوں کی تخلیقی زندگی سے ہے۔ ان میں ایک المیہ یہ ہے کہ اکثر تخلیق کار اپنے ابتدائی، تشکیلی دنوں میں شعلہ جوالہ ہوتے ہیں۔ بے خوف ومصلحت، وہ سب لکھتے ہیں جوخودان پر گزرتی ہے، آس پاس کی دنیا پر گزرتی ہے، تاریخ وروایت میں حقیقی و افسانوی کرداروں پر گزرتی رہی ہے۔

وہ اپنی ابتدائی تحریروں میں زبان وبیان پر کچھ زیادہ قدرت نہیں رکھتے، مگرآتش بجاں ہوتے ہیں۔ بیان کی لکنت کامداوا، خیال واحساس کی شدت اور اس کے جرأت مندانہ اظہار کی مدد سے کرتے ہیں۔ وہ دیکھے، ان دیکھے دشتِ بے اماں میں بے خوف وخطر سرگرداں محسوس ہوتے ہیں۔ اپنی تخلیقی روح کے اضطراب کو لکھتے چلتے جاتے ہیں۔ ان کے یہاں اگر کوئی عزم ہوتا ہے تو وہ تحریر کی اقلیم کو فتخ کرنے کا ہوتا ہے۔ حالاں کہ وہ ہر ہر قدم پر محسوس کرتے ہیں کہ تحریر کی اقلیم کو فتح کرنے کی جدوجہد آخری سانس تک کرنا پڑتی ہے۔

مگر جیسے ہی وہ شہر ت حاصل کرتے ہیں اور عمر میں پختہ ہوجاتے ہیں، ان کی تحریروں میں راکھ اڑتی محسوس کی جاسکتی ہے۔ وہ زبان وبیان کے استادانہ، استعمال سے، اس پر پر دہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ہر پردہ ہٹ کر رہتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

ایک وجہ یہ ہے کہ ابتدائی برسوں میں، تخلیق کار جدوجہد، تجربے کرتا ہے، خطرات سے کھیلتا ہے، نئی پرانی سب چیزوں کو شدت سے محسوس کرتا ہے، خود سے، دنیا سے، ماضی، حال، مستقبل سب سے ایک لامتناہی گفتگو میں شریک رہتا ہے۔ کہیں نئی باتیں سیکھتا ہے، کہیں اتفاق، کہیں اختلاف کرتا ہے، کہیں جھگڑا کرتا ہے۔

وہ اپنے حقیقی اظہار کے ضمن میں بڑے بڑوں سے جھگڑا مول لینے سے نہیں گھبراتا۔ اپنے تخلیقی اضطراب کے سلسلے میں سمجھوتا کرنا، اسے اپنی موت محسو س ہوتا ہے۔ اسے جسم کی موت کا نہیں، تخلیقی موت کا خوف واقعی لاحق ہوتا ہے۔ لیکن جیسے ہی اس کی کچھ کامیاں تسلیم کر لی جاتی ہیں، وہ ایک نئے خوف کا تجربہ کرتا ہے۔ اس دنیا کی ناراضی کا خوف، جس کی مرہون اس کی کامیابیاں ہیں۔

یہ خوف اس سے کئی بار بڑے بڑے سمجھوتے کراتا ہے۔ اپنی ذات، روح یا ضمیر کوخاموش رکھنے کا سمجھوتا۔ وہ یہ بات فراموش کردیتا ہے کہ خاموش کی گئی روح، بالآخر مر جاتی ہے۔

دراصل وہ اپنے تخلیقی حاصلات اور اپنی کامیابیوں سے قائم ہونے والے امیج کا غلام ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی تنہائی سے محروم ہوجاتا ہے۔

وہ حقیقی طور پر خود سےا ور دنیا سے کٹ جاتا ہے اور صرف اپنی کامرانیوں، ان سے متعلق تبصروں اور ایک ممتاز شخصیت کے طور پر اپنے امیج کا اسیررہتا ہے۔ وہ پہلے کی مانند تجربے کی جرأت نہیں کرتا، وہ ڈرتا ہے کہ کہیں اس کا بنا ہوا امیج ٹوٹ نہ جائے۔ وہ ایک مفروضہ رسوائی سے خو ف زدہ رہتا ہے۔

اس کا دل جو پہلے کسی اورسب سے مضطرب رہا کرتا تھا، اب اپنے معاصرین کے شکر وشکایت سے بھرا رہتا ہے۔ وہ گہرے، حقیقی جذبات کے بجائے، عام سماجی تائید وتوثیق کے حامل حقیر جذبات کی حامل ز ندگی بسر کرتا ہے۔ وہ یک تخلیق کار کی تنہا، وحشت خیز زندگی سے یکسر محروم ہوجاتا ہے۔

وہ روح کے حقیقی اضطراب کے بجائے، زمانے کی پسند ناپسندکے پیدا کردہ اضطراب کے ساتھ تھوڑا بہت گھسیٹ لیتا ہے!

ایک تخلیق کار کا اس سے بڑاالمیہ کوئی نہیں ہوسکتا۔

Check Also

Schengen Visa Fraud In Dubai

By Ashfaq Inayat Kahlon