Oriental College, Apne Aziz Shagirdon Ke Naam Khat
اورینٹل کالج، اپنے عزیز شاگردوں کے نام خط
عزیزان گرامی!
آپ نے مجھے جس طور الوداع کیا ہے، میرے لیے جن جذبات کا اظہار کیا ہے، وہ میرے لیے ایک واقعہ ہے۔ سدا یاد رہنے والا اور میری روح کو سرشار رکھنے والا واقعہ۔ آپ سب کا شکریہ۔
یہ خط شکریے اور کچھ دل کی باتوں میں آپ کو شریک کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں۔
میں بعض یکسر ذاتی اسباب کے تحت قبل از وقت سبک دوش ہوا ہوں۔ کوئی بیرونی جبر نہیں تھا۔ کوئی سازش وازش بھی نہیں تھی۔
مجھے آپ سب سے جدا ہونے کا دکھ ہے۔ آپ میرے خاندان کا حصہ ہیں۔ ہر استاد اپنے طالب علموں کی مدد سے اپنا ایک نیا خاندان بناتا ہے۔ یہ دوستوں، رفیقوں، عزیزوں کا خاندان ہوتا ہے۔
اب کچھ اپنے دل کی باتیں!
استاد بننا میرا انتخاب نہیں تھا۔ ہم سب کو اپنی زندگیوں میں"اپنے انتخاب" کے مواقع ملتے ہی کتنے ہیں! اور ہم میں سے کتنوں کو صحیح معنوں میں انتخاب کی اہلیت ہوتی بھی ہے کہ نہیں؟
لیکن اپنے انتخاب کے بغیر زندگی، دوسروں کا لادا ہوا بوجھ ہے!
ہم کب، کہاں پیدا ہوتے ہیں، ہمارے والدین کون ہیں، کس معاشی و تعلیمی حالت اور کس قسم کی شخصیت و مزاج کے حامل ہیں اور ان کے باہمی تعلقات کی نوعیت کیا ہے، ہمیں کن اداروں میں پڑھنے کا موقع ملتا ہے، اور کس قسم کے اساتذہ ہمیں میسر آتے ہیں، کس قسم کے حادثات ہمیں بچپن میں پیش آتے ہیں؟ پھر خود ہم کس مزاج و میلا ن کے ساتھ دنیا میں آتے ہیں؟ ان میں سے کوئی بات بھی ہمارے اختیار میں نہیں۔ ہمارے اوائلی اور تشکیلی سال، دوسروں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔ دوسروں سے مراد لوگ بھی ہیں، حالات بھی، اتفاقات اور تقدیر بھی۔
ہم دوسروں کے فیصلوں میں جنم لیتے ہیں۔
ہم دوسروں کے فیصلوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
ہم دوسروں کے پیدا کردہ حالات کو بھوگنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
دوسروں کی مسلط کی گئی جنگوں کے لیے اسلحہ اٹھانے اور اپنی جان تک لڑا دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ہمارے اندر بھی کوئی نہ کوئی جنگ مسلسل چل رہی ہوتی ہے۔
یہ بھی اکثر دوسروں کی شروع کی ہوئی جنگ ہوتی ہے اور ہم مجبور وبے کس سپاہی ہوتے ہیں۔
اور ہم دوسروں کے وضع کردہ نصاب میں اپنی زندگی کا معنی تلاش کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
حالاں کہ دوسروں کے وضع کردہ نصاب میں، دوسروں ہی کے مفادات مضمر ہوتے ہیں۔
آئرنی یہ ہے کہ ہم دوسروں کے مفادات میں اپنی ہستی کا معنی پالینے کا یقین بھی کرنے لگتے ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ سب" دوسرے" لازمی طور پر بے رحم ہوتے ہیں، مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہماری زندگیوں میں آنے والے ان سب "دوسروں" میں زیادہ تر وہی ہوتے ہیں جو ہمارے لیے جہنم بنتے ہیں اور دو ایک ضرور ایسے ہوتے ہیں جو اگر فردوس صفت نہ بھی ہوں تو ہمیں جہنم میں دھکیلنے والے نہیں ہوتے۔ انسانوں میں بے رحمی کی کوئی کمی نہیں، تاہم رحم نام کی اگر کوئی چیز ہے تو وہ بھی ہمارے ارد گرد کے انسانوں ہی میں موجود ہے۔ اور ان میں سے کچھ ضرور ہماری زندگی کا حصہ بھی بنتے ہیں۔ بے رحم انسانوں کی شکایت بجا مگر رحم دل لوگوں کی تحسین اور تشکر کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
بے رحمی کےمقابلے کا ایک ہی طریقہ ہے یہ کہ دوسروں کے ساتھ صلہ رحمی سے کام لیا جائے۔
فطرت، حالات، اتفاقات، تاریخ اور تقدیر کی پیدا کی گئی بے اختیاری میں اپنا اختیار تلاش کرنا نہایت مشکل ہے، مگر ممکن ہے اور حد درجہ لازم بھی۔ اس ممکن تک آدمی تبھی پہنچ سکتا ہے، جب ہمارے جذبا ت وخیالا ت کا رخ مشکل کی طرف کم اور ممکن کی طرف زیادہ ہو۔
میں کچھ اور بننا چاہتا تھا۔ استاد بننے کا کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا۔ حالاں کہ دوتین اساتذہ ایسے ملے تھے کہ ان کی تقلید کی جاسکتی تھی۔ لاشعوری طور پر کہیں یہ احسا س تھا کہ استاد بننا، ایک بارگراں اٹھانا ہے۔ میرے کاندھے نازک تھے اور دل اور طرح کی الجھنوں میں رہا کرتا تھا۔
مجھے تو خود کسی مضبوط کاندھے کی ضرورت اور ایک ایسے آدمی کی تلاش تھی جو میری الجھنوں کو خود مجھ پر کھولے اور مجھے ایک مطمئن دل کے ساتھ جینا سکھائے۔ ٹھیک انھی دنوں مجھے حالات، حادثات اور تقدیر نے استاد بنادیا۔ یا اللہ۔ اب کیا کروں؟ میں سو چا کرتا اور مزید مضطرب ہوجایا کرتا۔
جب کوئی آدمی ہاتھ پکڑنے والا نہ ہو تو آدمی یہ یقین کرلیتا ہے خدا نے اس کا ہاتھ پکڑا ہوا ہے۔ یا وہ اس سے بے نیاز ہوجاتا ہے کہ کوئی اس کا ہاتھ پکڑے۔ وہ کسی کاندھے پر سر رکھے اور کسی سے دردِ دل کی دوا طلب کرے۔
میں نے پہلی بات کا یقین بھی کیا اور دوسری بات کو حرزِجاں بنالیا۔ جب استاد بن گیا تو اس میں اپنے اختیار کو تلاش کرنا شروع کیا۔ میں نے یہ سمجھا کہ دوسروں کے فیصلوں میں جنم لے کر بھی ہم چاہیں تو ایک نیا جنم لے سکتے ہیں۔
ہمار ی بے اختیاری کی لمبی زنجیر میں ایک کڑی ہمارے اختیار کی بھی ہوتی ہے۔ نہیں ہوتی تو یہ کڑی پیدا کرلینی چاہیے۔ تاریخ و حالات کی زنجیر بہ ہر حال انسانوں ہی کی بنائی ہوئی ہے۔ اس کڑی تک رسائی کا ذریعہ تخیل اور تعقل ہیں اور یہ دونوں ہر شخص کو، کم یاز یادہ، فطرت کی طرف سے ودیعت ہیں۔
تخیل، دوسروں کی کھنچی ہوئی لکیروں کی حد سے باہر جانے کی راہ دکھاتا ہے، اور ایک اپنی دنیا پید اکرنے کی سپیس مہیا کرتا ہے۔
تعقل، دوسروں کی دی ہوئی زندگی، تصورات، خیالات، اقدار کے فہم سے، ان سب کے جبر سے بچنے کا علم دیتا ہے۔ اپنے تعقل کے پیدا کردہ علم یا اس تعقل سے دوسروں کی علم کی تصدیق، آدمی کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ کسی بھی شے سے ٹکرا جانے والی طاقت!
ادب نے مجھے تخیل کی اہمیت سے مسلسل آگاہ رکھا اور تنقید ادب نے تعقل کی اہمیت ومعنویت سے۔
میں نے دونوں میں ہمیشہ توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی۔
ان کو ایک دوسرے کا حریف نہیں، حلیف سمجھا۔ ذوق اور فہم کو رقیب نہیں، رفیق خیال کیا۔
جب ہم اپنی ہی صلاحیتوں کو ایک دوسرے کا حریف سمجھتے ہیں تو اپنے اندر خود ہی جنگ چھیڑ لیتے ہیں اور خود کو لہولہان کرتے رہتے ہیں۔
باہر جنگیں کم ہیں کہ اپنے اندر خود ہی ایک نئی جنگ شروع کر لیں، اور ایک ایسی جنگ جو ہمیں نہ تو کوئی نیا تجربہ دے، نہ کوئی نیا فن پارہ۔ محض غصہ، حقارت، حسد، نفرت، چیخم دھاڑ اور تباہی دے۔
چوں کہ میں نے استاد بننے کے بعد بہ طور استاد اپنے اختیار کو تلاش کرنے اور بروے کار لانے کی کوشش کی، اس لیے مجھے مسلسل محنت کرنا پڑی۔ میں کلاس روم میں جانے سے پہلے، محنت کرنے کا عادی بنا۔ خود پر محنت اور اپنے موضوع پر محنت۔
موضوع پر محنت میں آسانی تھی، خود پر محنت میں نہیں۔ ارد گرد بہت ترغیبات تھیں، دام تھے، کھائیاں تھیں، ڈھلانیں تھیں اور خطرات تھے اور صف دشمناں و حریفاں بھی تھی۔ صفِ حریفاں بڑھتی جارہی تھی اور کئی بار کمرہ جماعت تک اور میری روح تک پہنچ جایا کرتی تھی۔
ان سب سے بچ کر خود پر محنت آسان نہیں تھی۔ اس محنت کو آسان، ایک اخلاقی اصول نے بنایا۔ یہ کہ استاد اپنی روح کے آزار اور اپنے نفس امارہ کے زہر کا مداوا نہ کرسکے تو انھیں کمرہ جماعت میں یا کمرہ جماعت باہر طالب علموں تک نہیں پہنچنے دینا چاہیے۔
اس خیال کو مسلسل یاد رکھنے کی کوشش کی کہ ہر طالب علم کا وجودہی نہیں، اس کاذہن، اس کی روح بھی استاد کی امانت ہے۔
ایک عظم امانت۔ عظیم امانت کا بوجھ اٹھانا آسان نہیں ہوتا۔
طالب علم کے ذہن وروح پر کوئی بھی نقش بنانے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے۔ میں خود کو مسلسل یاد دہانی کرواتا۔
مجھے یہ احساس مسلسل مضطرب رکھتا کہ میں اپنے اعمال ہی کا نہیں، طالب علموں کی روحوں پر نقشہ گری کا بھی جواب دہ ہوں۔ سب سے بڑھ کو خود کو۔
طالب علموں کے سوالوں کے جواب سے پہلے، اپنے وجود کو لاحق سوالا ت کی تلاش پر پہروں صرف کیے۔
اندر کے پہر صدیوں پر محیط ہوا کرتے ہیں۔
طالب علموں تک بہ طور علم کوئی بات پہنچانے سے پہلے، اس بات کو علم کے درجے تک پہنچانے کی مسلسل سعی کی۔
کمرہ جماعت میں خود کو طاقت کی علامت بنانے کے بجائے، ایک عام متجسس اور مددگار شخص بننے کی کوشش کی۔ خود کو بادشاہ نہیں سمجھا، بادشاہوں کی پیدا کردہ دنیا پر سوال اٹھانے میں رفیق کا کردار ادا کرنے کی سعی کی۔ استاد اگر خود کو بادشاہ سمجھے تو طالب علم محکوم بن جاتےہیں، بے آواز مخلوق جنھیں استاد بادشاہ کے صرف قہر کا سامنا رہتا ہے۔
علم کی ترسیل کو یک طرفہ نہیں، دو طرفہ عمل سمجھا۔
علم کی ترسیل کو بے داغ رکھنے کی خاطر، کمرہ جماعت کے باہر کی فضا میں موجود کسی کشمکش کو کمرہ جماعت میں پہنچنے نہیں دیا اور نہ اپنے کسی نام نہاد کارنامے کے ذکر کو اپنی کسی گفتگو کا موضوع بنایا۔ ہر لیکچر کے موضوع کے تعارف، وضاحت اور اس کی دوطرفہ تفہیم پر ساری توجہ رکھی۔
نصیحت بہت کم کی۔ عمل کو ناصحانہ لفظوں پر فوقیت دی۔
چیزوں کی تفہیم میں سوال کو بنیادی اہمیت دی۔ وہ سوال جو کسی موضوع سے متعلق مستند معلومات پر تفکرکے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ سوال کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ اس بات کی گنجائش رکھی کہ میرے خیالات سے بھی اختلاف کا حق طالب علموں کو ہے۔
نظم وضبط کا خیال اس لیے رکھا کہ کمرہ جماعت میں ذمہ داری اور ارتکاز کی فضا برقرار رہے۔ مجھے احساس ہے کہ یہ نظم وضبط کچھ پر گراں گزرتا اور مگر مجھے یقین ہے کہ نظم وضبط کی گرانی، اس کے حاصل سے کم ہواکرتی۔
اور بھی کہنے کو بہت کچھ ہے۔
کہیں تعلی نظر آئے تونظر انداز کیجے گا۔ سچ پر کبھی کبھی تعلی کا گمان ہوسکتاہے۔
گفتگو کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
آپ سب کے لیے دعائیں۔
آپ کا خیر خواہ
ناصر عباس نیّر