Khwabon Ke Ajaib Ghar Aur Funoon
خوابوں کے عجائب گھر اور فنون

میں نے دنیا کے سب بڑے عجائب گھر دیکھے ہیں۔ میں ایک بار پیرس کے لوغوے عجائب گھر میں تھا۔ یہاں دنیا بھر سے لائے گئے، نوادارت رکھے ہیں۔ میں مونا لیزا کے شاہ کار کے سامنے کھڑا تھا۔ مجھ پر حضوری کے قریب قریب کیفیت تھی۔
مجھے خیال آیا کہ اگر یہ تصویر سے باہر آجائے تو؟
اگلا خیال یہ آیا کہ اگر ایفروڈائٹ، یوجین ڈیلا کرووا، لبرٹی لیڈنگ دی پیپل، جو سب عریاں مورتیاں اور تصویریں ہیں، وہ بھی زندہ ہو جائیں اور باقی سب مصری، ایشیائی، یورپی شاہ کار سانس لینے لگ جائیں اور پہلے عجائب گھر میں ہمارے ساتھ اور بعد میں سڑکوں پر آجائیں تو؟
میں اپنے اس خیال پر مبہوت ہوگیا تھا۔ ہم آدمی بھی کیا کیا سوچتے ہیں؟
آج مجھے اس کا جواب مل رہا ہے کہ ہم کیوں یہ عجیب باتیں سوچتے ہیں؟ کیوں کہ ہم خواب دیکھتے ہیں۔
میں نے جاگتے ہوئے، عجائب گھر میں سوچا نہیں ایک خواب دیکھا تھا۔ خوابوں میں بالکل اسی طرح ان سب چیزوں کی تصویریں، جو ہم رات دن بیداری کے عالم میں بناتے ہیں، ہمارے خواب راتوں کو انھیں زندہ کردیتے ہیں۔
لیکن خواب انھیں چلنے پھرنے، باتیں کرنے کے قابل نہیں بناتے، ان میں بہت ردوبدل بھی کرتے ہیں۔ ان کے چہرے، خدوخال، رنگ ڈھنگ، بہت کچھ بدل دیتے ہیں۔ یوں سمجھیے، خواب اس سررئیلسٹ مصور کی مانند ہیں، جو جانی پہچانی چیزوں کو بالکل انوکھا، عجب، پراسرار اور کئی بار بالکل بے ڈھنگا بنادیتا ہے۔
کہیں کی چیز، کسی میں شامل کردیتا۔ آدمی کو جانور، عفریت، شیطان، دیوتا جانے کیا کیا بنادیتا ہے۔ خواب: اپنے جانور، اپنے پرندے، اپنے دریا، اپنے سمندر، اپنے پہاڑ، اپنے صحرا، اپنے گھر، اپنے شہر ایجاد کرتا ہے۔ خواب کے شہر اور شہری، عجب ہوتے ہیں، لیکن خواب میں ان کے عجب ہونے کا خیال تک نہیں آتا۔ لفظ عجب، خواب پر بیداری کا اضافہ ہے۔
میں یہ بات زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ آدمی کا حافظہ، آرٹ گیلری نہیں، عجائب گھر ہے۔ اس عجائب گھر میں وہ سب کچھ موجود ہے، محفوظ ہے اور حنوط کیا گیا ہے، جو کچھ آدمی کو درپیش ہوا، نظر سے گزرا، مطالعے اور خیال میں آیا اور اس کے جینز میں جو لاکھوں سالوں سے مضمر ہے۔
یہ ایک عجب بات ہے کہ خود آدمی اپنے عجائب گھر کی ایک ایک شے سے واقف نہیں۔ آدمی کبھی کبھار ہی پوری طرح بیدار ہوتا ہے۔ وہ دنیا میں چل پھر رہا، کام کررہا ہوتا ہے، مگر غفلت و کم نگاہی و محدود آگاہی کی حالت میں ہوتا ہے۔
خواب، اس کی غفلت و کم نگاہی و محدود آگاہی کی تلافی کرتے ہیں۔ خواب، آدمی اس لیے دیکھتا ہے کہ جو کچھ اس کے حافظے کے عجائب گھر میں رکھا گیا ہے، وہ اس سے واقف ہوسکے۔ میں تو یہ کہتا ہوں کہ نیند، آتی ہی اس لیے ہےکہ آدمی خواب دیکھ سکے۔ خود کو دیکھ سکے۔ اپنے گم شدہ جزیروں کی سیر کرسکے، بھولی بسری یادوں کو زندہ کرسکے اور کھوئے ہوئے لوگوں سے ملاقات کرسکے۔
آدمی کے عجاب گھر اور دنیا کے عجائب گھر میں ایک فرق ہے۔ دنیا کے عجائب گھروں میں مکمل و شکستہ دونوں طرح کی چیزیں ہوتی ہیں، جب کہ آدمی کے عجائب گھر میں صرف نامکمل، تشنہ، شکستہ، ادھوری چیزیں رکھی ہوتی ہیں۔
جس طرح کچھ مصور، اپنی کوئی تصویر مکمل نہیں کر پاتے، کوئی شاعر اپنی نظم ادھوری چھوڑ دیتا ہے، کوئی مسافر راستے سے پلٹ آتا ہے، محبت کی کوئی کہانی ہجر ووصال کے بیچ کہیں اٹک جاتی ہے، کسی درخت کی ایک شاخ ہری، دوسری سوکھ جاتی ہے، آدمی کی روح کا کوئی حصہ کسی جگہ، کسی دل، کسی یاد میں کہیں رہ جاتاہے اور آدمی کے دل میں تاسف کا کوئی کانٹا اتر جاتا ہے، آدمی کے حافظے کے عجائب گھر میں بس ایسی ہی چیزیں موجود ومحفوظ وحنوط ہوتی ہیں اور خوابوں میں وہی زندہ ہوجاتی ہیں۔
یوں سمجھیے، مونا لیزا کی مسکراہٹ میں کوئی پوشیدہ کرب، جو کسی آنکھ کو دکھائی نہیں دیتا، خود مونا لیزا بھی اس سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوتی، وہ رات کی تاریکی میں مونا لیزا کے خواب میں، ایک بھیانک قہقہے کی صورت ظاہر ہوتا ہے۔
مجھے اپنی ماں یاد آتی ہے۔ ابھی پانچ چھ سال کا تھا۔ مجھے صبح سویرے جگاتیں اور کہتیں۔ جاؤ منھ ہاتھ دھوؤ۔ دیکھو تمھارے چہرے پر شیطان موت گیا ہے۔ کب؟ میں حیرت اور غصے سے پوچھتا۔ جب تم گہری نیند میں تھے، تب، اماں بے پروائی سے کہتیں۔ میں سردیوں میں بھی بھاگ کر جاتا اور ٹھنڈے پانی سے منھ ہاتھ دھوتا۔ اب سمجھ میں آتا ہے کہ رات کے خواب آدمی کا چہر ہ بگاڑ دیتے ہیں۔
مجھے اس میں ذرا شک نہیں کہ اگر آدمی خواب نہ دیکھتا تو اساطیر، حکایات، شاعری اور دوسرے فنون وجود میں نہ آتے۔
مجھے اکثر محسوس ہوتا ہے کہ ہر خواب کی ایک اور جڑ، آدمی کا جسمانی تجربہ ہے۔ وہ سب باتیں، جنھیں محسوس کرتے ہوئے، آدمی کے بدن میں کوئی کاٹتی ہوئی لہر دوڑ جاتی ہے اور آدمی کے اعصاب کھنچ جاتے ہیں، یا کوئی شیریں موج، آدمی کی ہر ہر رگ میں جاری ہوجاتی ہے اور سب رگیں کوئی دریا بن جاتی ہیں، ان لہروں اور موجوں کو بیان کرنے کے لیے بدن کے پاس کوئی زبان نہیں ہے اور سچ یہ ہے کہ یہی تجربے بدن کی زبان ہیں۔
لیکن مدتیں گزریں، آدمی اپنے ہی بدن کی زبان بھول چکا ہے اور تاسف کا شکار ہے۔ آدمی کے خواب، بدن کے انھی تجربوں کو، جو آدمی کے لیے مبہم، نامکمل، تشنہ رہتے ہیں، زبان دیتے ہیں۔ خواب، آدمی کے بدن کی زبان کے مترجم ہیں، زبانِ دیگر ہیں۔
سچ یہ ہے کہ آج ہم خواب دیکھنا بند کر دیں تو فنون وجود ہی میں نہ آسکیں اور خوابوں کو نظر انداز کردیں تو فنون کو سمجھ ہی نہ سکیں۔ خوابوں کی اپنی منطق ہے، جو بیداری اور عقل کی منطق سے مختلف ہے۔ خوابوں کی منطق ہی سے شاعری کو سمجھا جاسکتا ہے اور شاعری کی منطق سے خواب سمجھے جاسکتے ہیں۔
(زیرتصنیف: میرا داغستانِ جدید سے اقتباس)۔