Jadeed Daur, Taraqqi Ya Zawaal?
جدید دور، ترقی یا زوال؟
![](https://dailyurducolumns.com/Images/Authors/mujahid-khan-taseer.jpg)
جدید دور کو انسانی تاریخ کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ زمانے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انسان نے ٹیکنالوجی، سائنس اور علم کی دنیا میں وہ کامیابیاں حاصل کی ہیں جن کا تصور بھی ماضی کے لوگ نہیں کر سکتے تھے۔ ناممکنات کو ممکن میں بدلنے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے دنیا کو حیران کرنے والا انسان آج ایسی منزل پر پہنچ چکا ہے جہاں وہ اپنی عقل و دانش پر فخر کر رہا ہے۔ زندگی کو آسان بنانے کے لیے ایجادات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے، جس میں انسان نے خود کو دنیا کے ہر کونے تک رسائی دینے، فوری معلومات حاصل کرنے اور وسائل کے بہترین استعمال میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ لیکن اس ترقی اور کامیابی کے باوجود، ایک اہم سوال اپنی جگہ موجود ہے: کیا یہ ترقی انسان کے لیے حقیقی خوشی، سکون اور اطمینان کا ذریعہ بن سکی ہے؟
انسان اپنی ایجادات پر فخر محسوس کرتا ہے۔ وہ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے زمین و آسمان کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور قدرت کی تمام مخلوقات پر اپنی فوقیت ثابت کر دی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی اندرونی دنیا میں شکست خوردہ نظر آتا ہے۔ زندگی کی سہولیات کے باوجود، وہ بے سکونی اور بے اطمینانی کا شکار ہے۔ آج کا انسان سب سے بہترین کیمرا استعمال کرکے خوبصورت لمحات کو قید کرتا ہے، لیکن اس کے اپنے چہرے کی مسکراہٹ مصنوعی ہوتی ہے۔ اس کے دل کی گہرائیوں میں خوشی کی وہ حقیقی کیفیت موجود نہیں جو ماضی میں لوگوں کے چہروں پر جھلکتی تھی۔ تیمور حسن تیمور کا ایک بڑا خوبصورت شعر ہے۔
اے قہقہہ بکھیرنے والے تُو خوش بھی ہے؟
ہنسنے کی بات چھوڑ، ہنستا تو میں بھی ہوں۔
ماضی کی زندگی سادگی اور قناعت پر مبنی تھی۔ محدود وسائل میں بھی لوگ اپنی زندگی سے مطمئن رہتے تھے۔ ہمارے بزرگوں کا طرزِ زندگی تعلقات کو اہمیت دینے اور رشتوں کو نبھانے پر مشتمل تھا۔ وہ لمبے سفر طے کرکے بھی عزیزوں سے ملاقات کے لیے وقت نکالتے تھے۔ آج کے جدید دور میں فاصلے تو کم ہو چکے ہیں، لیکن دلوں کے درمیان دوریاں بڑھ گئی ہیں۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کو قریب کر دیا ہے، لیکن اس قربت میں محبت، اخلاص اور احساس کی وہ گہرائی موجود نہیں رہی۔ لوگ میسنجر یا دیگر پلیٹ فارمز پر بات کرتے ہوئے انتہائی حساس اور محبت کرنے والے محسوس ہوتے ہیں، لیکن جب وہ حقیقی زندگی میں ملتے ہیں تو ان کی شخصیت کا تضاد نمایاں ہو جاتا ہے۔
یہ جدیدیت نہ صرف تعلقات کو متاثر کر رہی ہے بلکہ انسانی شخصیت کو بھی دو مختلف پہلوؤں میں تقسیم کر رہی ہے۔ ایک وہ شخصیت ہے جو سوشل میڈیا پر نظر آتی ہے اور دوسری وہ جو حقیقی زندگی میں سامنے آتی ہے۔ یہ تضاد نہ صرف انسان کی خودی کو متاثر کر رہا ہے بلکہ اس کے اردگرد کے لوگوں کے لیے بھی اسے ناقابلِ بھروسہ بنا رہا ہے۔ آج، ہر شخص اپنے اندر خوف اور شک کا شکار ہے۔ دوسروں کے رویے اور نیتوں پر شک کرتے ہوئے، وہ اعتماد کی کمی کا شکار ہو رہا ہے۔ یہ شک اور خوف انسان کو ایک ایسے دائرے میں دھکیل رہے ہیں جہاں وہ اپنی ذات سے بھی بے خبر ہو چکا ہے۔
اس ذہنی دباؤ اور بے سکونی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ مادی ترقی نے انسان کو سہولتیں تو فراہم کی ہیں، لیکن ان سہولتوں کے ساتھ ساتھ اس نے انسان کو ایک مشین کی طرح بنا دیا ہے۔ آج کا انسان جذباتی طور پر کمزور ہو چکا ہے۔ اس کی زندگی میں سکون ناپید ہو چکا ہے اور وہ ہر وقت کسی نہ کسی پریشانی میں مبتلا رہتا ہے۔ یہ صورتحال ہمیں اس سوچ پر مجبور کرتی ہے کہ کیا ہم واقعی ترقی کر رہے ہیں، یا اپنی اصل زندگی سے دور ہو رہے ہیں؟
روحانی اور اخلاقی پہلو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ سکون صرف مادی وسائل یا ظاہری کامیابیوں میں نہیں ہے۔ سکون اور اطمینان انسان کی روحانی حالت اور اس کے تعلقات کی گہرائی سے منسلک ہیں۔ جب انسان اپنی زندگی کے ان پہلوؤں کو نظرانداز کرتا ہے، تو وہ بے سکونی اور بے اطمینانی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جدید دور نے انسان کو سہولتیں تو دی ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس سے اس کی اصل خوشی اور سکون بھی چھین لیا ہے۔
اگر ہم ماضی اور حال کا موازنہ کریں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ماضی کے لوگ محدود وسائل کے باوجود خوش اور مطمئن تھے۔ ان کی زندگی میں سادگی، قناعت اور محبت موجود تھی۔ وہ اپنی ذات اور تعلقات کے بارے میں زیادہ شعور رکھتے تھے۔ آج، ہماری زندگی سہولتوں سے بھرپور ہے، لیکن ہم اپنے رشتوں کو وقت اور اہمیت دینے سے قاصر ہیں۔ ہمارا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر گزرتا ہے، جہاں ہم اپنی حقیقی شخصیت کو چھپا کر دوسروں کے لیے ایک مصنوعی چہرہ پیش کرتے ہیں۔ اس مصنوعی زندگی نے ہمیں ہماری اصل حقیقت سے دور کر دیا ہے۔
اگر ہمارے بزرگوں کو دوبارہ زندہ کر دیا جائے، تو شاید وہ ہماری زندگیوں کو دیکھ کر اسے جنت سمجھیں۔ لیکن جب وہ ہماری اندرونی حالت کو دیکھیں گے، تو یقیناً یہ کہیں گے کہ یہ جنت نہیں بلکہ جہنم ہے۔ اس مصنوعی زندگی نے ہمیں روحانی سکون اور خوشی سے محروم کر دیا ہے۔ ہمیں اپنی ترجیحات پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
انسانی ترقی کا مقصد صرف مادی کامیابیاں حاصل کرنا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی پہلوؤں کو بھی اہمیت دینی چاہیے۔ رشتوں میں اخلاص، قناعت اور محبت کا فروغ ہماری زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرنا اور اپنی ذات کی پہچان حاصل کرنا وہ عوامل ہیں جو ہمیں حقیقی سکون اور اطمینان دے سکتے ہیں۔
آخر میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ جدید دور کی ترقی کا مقصد زندگی کو آسان بنانا ہے، لیکن یہ آسانی تبھی مکمل ہو سکتی ہے جب ہم اپنی زندگی میں توازن پیدا کریں۔ مادی ترقی کو روحانی اور اخلاقی ترقی کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ضروری ہے تاکہ ہم اپنی زندگی کو حقیقی خوشی، سکون اور اطمینان سے بھرپور بنا سکیں۔