Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Atif Kazmi
  4. Sada Chiryan Da Chamba

Sada Chiryan Da Chamba

ساڈا چڑیاں دا چنبا

کہتے ہیں ایک ماں کے لیے اپنی بیٹی کو خود سے جدا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن ایک بھائی اپنی بہن کو الوداع کہتے ہوئے کیسا محسوس کرتا ہے کوئی اس پہ بات نہیں کرتا۔ کہتے ہیں بھائی بہنوں کا حصہ کھا جاتے ہیں، انہیں جائیداد سے پھوٹی کوڑی نہیں دیتے لیکن کوئی اس پہ بات نہیں کرتا اگر جائیداد کے نام پہ ایک چوَنی وراثت میں موجود نہ ہو تو ایک مزدور بھائی اپنی بہن کہ جس نے اسے باپ بن کر پالا ہو پیا کے گھر کیسے رخصت کرتا ہے اور وہ معاشرے میں عزت بنانے کی خاطر کس طرح سے انتظامات کرتا ہے۔ یقین کیجیئے اس جگ میں ایسے کتنے بھائی بیٹے موجود ہیں جن کا اپنا کوئی خواب ہی نہیں ہے، ان کی زندگیاں بس اپنی ماں، بہنوں بیٹیوں کے خواب پورے ان کے ارمان پورے کرتے گزر جاتی ہے۔

بھائی جب باپ بن کر سوچتا ہے تو وہ اپنے فرائض نبھانے کو پوری جان لگا دیتا ہے اور بہت کچھ کرنے کے باوجود بھی مطمئن نہیں رہتا کیونکہ اولاد سے پیار کا حق تو تاحیات ادا نہیں ہو پاتا یا پھر پیار میں جتنا بھی دیا جائے پیارے کرنے والے کو کم ہی لگتا ہے۔ شادی کے موقع پہ حسب حیثیت بھائی سب کچھ کرتا ہے لیکن ایک کام نہیں کرتا اور وہ ہے اپنی بہن سے اس کی پسند نہ پسند پوچھنا۔ بھائی جتنا بھی پیار کرنے والا ہو وہ بہن کا ہاتھ اسی شخص کے ہاتھ میں دیتا ہے جو اس کی اپنی پسند کے مطابق ہو لیکن الحمدللہ میں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ میں نے اپنی بہن کی پسند کو ترجیح دی اور اسے مکمل اختیارات دیئے کہ وہ اپنی پسند نہ پسند کا کھل کر اظہار کرے، گویا یہ شادی میری بہن کی پسند کے عین مطابق ہے۔

میں پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی ہوں مجھ سے چار بڑی بہنیں تو خیر سے بڑی تھیں جنہوں نے مجھے بڑے بھائیوں کی طرح سنبھالا لیکن مجھ سے چھوٹی میرے لیے بیٹی کی مانند ہے۔ میں نے بہت چاہا کہ آخری بہن کی رخصتی کے موقع پہ اسے وہ سب کچھ دوں جس کی مجھے خواہش تھی لیکن چاہ کر بھی میں وہ سب نہ کر پایا۔۔ حتیٰ کہ میں تو جاتے سمے اسے گلے بھی نہ لگا پایا بلکہ دور ہٹ کر کھڑا ہوگیا کہ مجھ میں اتنا حوصلہ نہ تھا نم اکھیوں سینے سے لگا کر اس کی پیشانی پہ الوداعی بوسہ دے سکتا۔ عین رخصتی کے سمے مجھے اس کا بچپن یاد آنے لگا۔

مجھے دو پونیوں والی وہ گڑیا یاد آ رہی تھی جو گلابی فراک پہنے میری انگلی پکڑ کر میرے سنگ پگڈنڈیوں اور گاؤں کی گلیوں میں گھوما کرتی تھی، جو توتلی آواز میں بولتی تو میں اس کی نقلیں اتارتا تھا، جس کی پونی کھینچ کر رلاتا تھا تو کبھی اسے اتنی گدگدی کرتا کہ وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتی تھی۔ مجھے وہ ننھی سی بچی یاد آ رہی تھی جسے میں اپنے حصے کی چیز کھانے کو دیتا تو وہ بدلے میں میرا گال چوم لیتی تھی اور پھر اور پھر یکدم مجھے جوان ہوتی وہ لڑکی نظر آنے لگی جس نے میرا گھر بنانے کو بھائیوں کی طرح محنت و مشقت کی، میرے سکھ دکھ میں ساتھ دیا اور کبھی ناجائز خواہشات کا اظہار نہ کیا۔

میں سوچ رہا تھا کہ محض کل تک جو لڑکی گھر کی اشیاء ترتیب میں لگا رہی تھی، جس کے ذمہ پورے گھر کی صفائی ستھرائی تھی کل تک وہ جس گھر کو اپنا گھر کہتی تھی آج اسی کو خیر باد کہہ کر یوں جا رہی تھی جیسے چند روزہ مہمان ہی تو تھی۔ اب جب کبھی وہ شوہر سے اجازت نامہ لے کر وہ میری طرف آئے گی تو اسے واپس جانے کی پڑی ہوگی۔ اب شب و روز ایک ساتھ گزارنا کہاں ممکن ہوگا۔

کتنا مشکل ہوتا ہے اپنی بہن کا ہاتھ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دینا جس سے آپ نئے نئے متعارف ہوئے ہوں، کتنا مشکل ہوتا ہے بیٹی کے لیے اپنا اپنے باپ کا گھر چھوڑنا۔ کتنا مشکل ہوتا ہے اپنے جگر گوشوں کو خود سے جدا کرنا اپنوں کو الوداع کہنا۔ میں نے مسرت نذیر کے گائے اس کلام کو زندگی میں پہلی بار پوری شدت سے محسوس کیا۔۔

ساڈا چڑیاں دا چنبا وے بابلا
اساں اُڈ جاناں، اساں اُڈ جاناں

بیٹھی جنج بُوہا مَل کے
ہوناں میں پردیسن پلکے

گھر دیاں کنجیاں سانبھ لے ماں
اساں اُڈ جاناں، اساں اُڈ جاناں

ساڈا چڑیاں دا چنبا
جتھے کھیڈے گُڈیاں پٹولے

جند اج اوسے گھر وِچ ڈولے
میرے درد سنے اج کون وے

اساں اُڈ جاناں، اساں اُڈ جاناں
ساڈا چڑیاں دا چنبا

امبڑی، بابل، ویر پئے تکدے
لِکھیاں نوں اوہ موڑ نہ سَکدے

ٹُٹ گئے سارے مان وے
اساں اُڈ جاناں، اساں اُڈ جاناں

ساڈا چڑیاں دا چنبا
بخش دے مائیں بتّی دھاراں

جاندی واری سلام گذاراں
تیرے قسمت دے نال میل وے

اساں اُڈ جاناں، اساں اُڈ جاناں۔۔!

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali