Tuesday, 18 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mubashir Ali Zaidi
  4. Nafrat Ki Bheent

Nafrat Ki Bheent

نفرت کی بھینٹ

اریت ہمیں اپنی بستی میں لے کر چلیں۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ کیبوٹز میں رہنے والے اسرائیلی کتنے بڑے مکانوں میں رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں مشہور ہے کہ تمام یہودی بہت مذہبی ہوتے ہیں۔ بہت مالدار ہوتے ہیں، لیکن یہاں مختلف معاملہ تھا۔ کروڑوں ڈالر کمانے والے چند سو افراد کے مکان پانچ مرلے کے تھے۔ ان کے پاس پرانی گاڑیاں تھیں۔ مکانوں میں عام سامان تھا۔

اریت نے بتایا کہ کیبوٹز میں رہنے والے لوگ فلسطینیوں سے زیادہ سوشلسٹ ہوتے ہیں، آئیڈیلسٹ ہوتے ہیں۔ وہ پوری دنیا کے لوگوں سے محبت کرتے ہیں۔ وہ رضاکار ہوتے ہیں۔ ان میں خدمت کا جذبہ ٹوٹ ٹوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ سخت گیر اسرائیلیوں کو نظرانداز کرکے غزہ جاتے اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے۔

لیکن پھر اریت روہانسی ہوگئیں۔ انھوں نے کہا، سات اکتوبر 2023 کی شب ایک ہزار جنگجووں نے ہم پر حملہ کیا۔ ان کے پاس پستول اور بندوقیں تھیں، بم تھے، تار کاٹنے والے آلات تھے، گاڑیاں تھیں، آگ لگانے کا سامان تھا۔ اس منظم حملے سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کی تیاری دو چار دن میں نہیں، مہینوں ہوئی ہوگی۔ وہ صرف گولیاں چلانے اور بم پھینکنے نہیں آئے تھے۔ انھوں نے لوگوں کو قتل کیا، اغوا کرکے ساتھ لے گئے، گھر جلاتے رہے۔

اریت نے ہمیں اپنے ہمسایوں، محلے داروں اور دوستوں کے گھر دکھائے۔ جن میں بوڑھے رہتے تھے۔ جن میں بچے رہتے تھے۔ جن میں باہر سے مہمان آئے ہوئے تھے۔ جن میں غیر ملکی ملازم مقیم تھے۔ جنگجووں نے کسی کو نہیں بخشا۔ انھوں نے عجیب بات بتائی۔ جنگجو قتل و غارت کرنے آئے تھے لیکن انھوں نے لوٹ مار بھی کی۔ موبائل فون، کمپیوٹر، جیولری ہی نہیں، کپڑے اور جوتے تک اٹھاکر لے گئے۔

پھر اریت نے جو بتایا، اس پر فوری طور پر یقین نہیں آیا۔ انھوں نے کہا، اسرائیلی فوج غزہ میں گھسی تو اسے ہر گھر میں اسلحہ ملا۔ ہر گھر میں۔ کسی نے کچن میں چھپایا ہوا تھا۔ کسی نے بچوں کے بستر کے نیچے۔ کسی نے چھت پر۔ اسپتال حماس کے ہیڈکوارٹر تھے۔ ان میں اسلحہ ذخیرہ کیا گیا تھا۔ یہ اسلحہ کہاں سے خریدا گیا؟ آپ کے امریکا، یورپ اور عرب ملکوں سے اربوں ڈالر کی جو امداد آتی ہے، اس رقم سے۔

حیرت سے ہمارے منہ کھلے ہوئے تھے۔ اس سے پہلے میں اسرائیل میں جتنے یہودیوں سے ملا، وہ سب نرم خو تھے۔ اگر ان کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں تھی تو غصہ بھی نہیں تھا۔ میں نے یونیورسٹی کے پروفیسروں، رکن پارلیمان اور عام آدمی تک سے سخت سوالات کیے لیکن انھوں نے خندہ پیشانی سے جوابات دیے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے کسی کو اس قدر رنجیدہ دیکھا۔ غصے میں دیکھا۔ مایوس دیکھا۔

لوگ آگے بڑھ گئے۔ میں ایک جگہ ٹھہر گیا۔ میں اس بستی کو غور سے دیکھنا چاہتا تھا۔ اندازہ لگانا چاہتا تھا کہ جب سب لوگ یہاں رہتے ہوں گے تو کیسا ماحول ہوگا۔ مجھے گلیوں میں کئی بلیاں نظر آئیں۔ معلوم نہیں، وہ آوارہ بلیاں تھیں یا پالتو اور اپنے مالکان کے بعد بھٹک رہی تھیں۔ میں نے سر اٹھاکر دیکھا اور درختوں پر سیکڑوں طوطے نظر آئے۔ جیسے سبز طوطے ہمارے ہاں ہوتے ہیں۔ پہلی بار ان کے بڑے گھونسلے دیکھے۔

اریت کو الوداع کہہ کر ہم گاڑی میں بیٹھے۔ ہماری اگلی منزل نووا قتل عام کا مقام تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سات اکتوبر کی شب میوزک کنسرٹ ہورہا تھا۔ سیکڑوں نوجوان جمع تھے اور ہلہ گلہ کررہے تھے۔ جنگجووں نے شب خون مارا اور نہتے افراد پر چڑھ دوڑے۔ درجنوں افراد کو قتل کیا اور لڑکیاں اغوا کرلیں۔ آج وہاں غم کا ماحول ہے۔ قتل اور اغوا کیے گئے افراد کی تصویریں لگی ہیں۔ یہ مقام بھی غزہ کی سرحد کے بالکل سامنے ہے۔

یہاں اسرائیلی صحافی ائیلیت کہین نے ہمارے انٹرویوز کیے۔ وہ مجھ سے گفتگو کررہی تھیں کہ اچانک دھماکے شروع ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ اسرائیلی فوج دہشت گردی کے لیے استعمال کی گئی عمارتیں گررہی ہے۔ ہر دھماکے پر اسرائیلی صحافی سہم جاتیں۔ ایک بار انھوں نے کہا، کسی دھماکے پر آپ نے پلکیں تک نہیں جھپکائیں۔ میں نے انھیں یاد دلایا، میرا تعلق پاکستان سے ہے۔ ایسے بہت دھماکے سنے ہیں۔

سرحد کے اس طرف نہیں، یہاں بھی اسرائیلی فوجیوں کا ایک دستہ موجود تھا۔ ان میں تومر ہاوا سے ہماری ملاقات کروائی گئی۔ لمبا سا خوبصورت نوجوان فوجی وردی پہنے ہوئے تھا۔ اس نے ہمیں اپنی کہانی سنائی۔

تومر سات اکتوبر کی شب نووا فیسٹول میں موجود تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ کافی شراب پی چکا تھا اور نشے میں تھا جب فائرنگ شروع ہوئی۔ سبھی نے بھاگنے کی کوشش کی۔ جس کی قسمت اچھی تھی، وہ بچ گیا۔ جس کی قسمت اچھی نہیں تھی، وہ مارا گیا یا جنگجووں کے ہتھے چڑھ گیا۔ شاید تومر کے دوستوں نے بھاگنے میں مدد کی۔ اس نے بتایا کہ وہ چھ گھنٹے تک بھاگتا رہا۔ گھر والوں کو میسج کرکے آخری سلام بھیج دیا۔ رات کو بیابان میں کچھ کھانے پینے کو نہ تھا۔ جنگجو تعاقب کررہے تھے۔ وہ اور چند دوسرے لوگ اتفاق سے ایک بستی کے قریب پہنچے جس کے رہنے والوں نے انھیں پناہ فراہم کی۔

تومر نے بتایا کہ اس کا چھوٹا بھائی نوم ریزرو فوج میں تھا۔ وہ سات اکتوبر کے بعد غزہ بھیجے گئے دستوں میں شامل تھا۔ وہاں دس ماہ پہلے ایک جھڑپ میں مارا گیا۔ وہ اس کے خاندان کے لیے بہت مشکل وقت تھا اور جب اس نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی فوج میں شامل ہوگا تو اس کے والدین نے بہت روکا۔ لیکن اس کا فیصلہ اٹل رہا۔

تومر نے بھی وہی بیان کیا جو اریت بتاچکی تھیں۔ لیکن یہاں عینی شاہد کی گواہی تھی۔ تومر نے کہا کہ میں اسرائیلی فوج کے ہمراہ غزہ کے جس گھر میں گھسا، وہاں اسلحہ ملا۔ حماس نے بچوں کے اسکولوں میں راکٹ لانچر چھپائے ہوئے تھے۔ اسپتالوں کو اسلحے کے گودام بنایا ہوا تھا۔ فوج نے بہت محتاط ہوکر، بہت ضبط کرکے، مکمل اطمینان کرکے کارروائیاں کیں کیونکہ سو سے زیادہ افراد اب بھی حماس کی قید میں ہیں۔ جیسے ہی اسرائیلی فوج کسی ایسی جگہ پہنچتی ہے، جہاں قیدی چھپائے ہوئے ہوں، تو جنگجو انھیں قتل کردیتے ہیں۔

تومر کے رخصت ہونے کے بعد میں نے چاروں جانب ایک چکر لگایا۔ غزہ کی جانب آسمان سے اٹھتا سفید دھواں دیکھا۔ اسرائیلی فوج کا گشت دیکھا جن میں لڑکوں لڑکیوں کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔ پھر نووا فیسٹول کے مقام پر ان لوگوں کے فوٹو دیکھے جو ابھی تک غزہ میں کہیں قید تھے۔ میں نے سوچا، جانے ان پررونق چہروں، خوش لباس جسموں اور ذہین دماغوں میں سے کتنے زندہ ہوں گے، کتنے نفرت کی بھینٹ چڑھ چکے ہوں گے۔

Check Also

Ittefaq Itna Khoobsurat Nahi Hua Karte

By Tehsin Ullah Khan