Thursday, 03 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Fuzail Raza
  4. Mehfooz Mustaqbil

Mehfooz Mustaqbil

محفوظ مستقبل

حضرت ثوبانؓ نے بیان کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: " بیشک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو لپیٹا اور میں نے اس کی مشرقوں اور مغربوں کو دیکھا اور بلاشبہ میری امت کی عمل داری وہاں تک پہنچے گی جہاں تک اسے میرے لیے لپیٹا گیا ہے اور مجھے سرخ و سفید (سونا چاندی) دو خزانے دیے گئے ہیں اور میں نے اپنے رب تعالیٰ سے سوال کیا ہے کہ میری امت کو عام قحط سے ہلاک نہ فرمائے اور ان پر ان کے اپنے اندر کے علاوہ باہر سے کوئی دشمن مسلط نہ ہو جو انہیں ہلاک کرکے رکھ دے۔ تو میرے رب نے مجھے فرمایا: " اے محمد (ﷺ)! میں جب کوئی فیصلہ کرتا ہوں تو اسے رد نہیں کیا جاتا۔

میں (تیری امت کے) ان لوگوں کو عام قحط سے ہلاک نہیں کروں گا اور ان کے اپنے اندر کے علاوہ باہر سے کوئی دشمن مسلط نہیں کروں گا جو انہیں ہلاک کرکے رکھ دے اگرچہ سب ملکوں والے ان پر چڑھ دوڑیں (تو انہیں ہلاک نہیں کر سکیں گے۔) البتہ یہ آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور ایک دوسرے کو قید کریں گے۔ " (آپ ﷺ نے فرمایا) " مجھے اپنی امت پر گمراہ اماموں کا خوف ہے اور جب ان میں ایک بار تلوار پڑ گئی تو قیامت تک اٹھائی نہیں جائے گی اور اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک کہ میری امت کے کچھ قبائل مشرکوں کے ساتھ نہ مل جائیں اور کچھ قبیلے بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں

اور عنقریب میری امت میں کذاب اور جھوٹے لوگ ظاہر ہوں گے، ان کی تعداد تیس ہوگی، ان میں سے ہر ایک کا دعوی ہوگا کہ وہ نبی ہے۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا۔۔ ابن عیسیٰ نے کہا۔۔ حق پر غالب رہے گا۔ ان کا کوئی مخالف ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا حتیٰ کہ اللہ کا فیصلہ آ جائے گا۔ "

زمانہ وہ چاک ہے جس پہ مینہ و جام و سبوک، فانوس و گلدان کی ماند بنتے بگڑتے ہیں انساں۔

پاکستان ایک آزاد ریاست ہے اس عظیم مقولے کو آج فقط مذاق سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ شاید سیاستدان، اشرافیہ اور عسکری الجھاو ہے۔ آج ہر پاکستانی کے قلوب و اذہان پر مایوسی کے بادل چھائے ہیں ہر آدمی عدم استحقاق کا شکار ہے اور اسکا سبب بےروزگاری یا کاروباری انتشار ہے۔ آج ہر پاکستانی کی زبان پہ ایک ہی جملہ ہے کہ پاکستان میں 'فیوچر' نہیں یعنی مستقبل محفوظ نہیں اور ان عظیم اذہان کے مطابق مستقبل کہاں محفوظ ہے؟ یورپ میں، برطانیہ میں، امریکہ میں۔

ان فرنگیوں، کفار و مشرکین کے ہاں محفوظ ہے جن کے بارے میں ہمارے دین میں حکم ہے کہ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔

ان سورماوں کے ہاں محفوظ ہے جن سے دین کی بقا کے لیے انبیا عہ و رسل و اصحاب نے جنگیں لڑیں اور اپنی عظیم جانوں کی قربانیاں پیش کی۔

ان کے ہاں محفوظ ہے جن سے قبلہ اول کا قبضہ لینے کے لیے صلاح الدین ایوبی اور زنگی جیسے سالاروں نے صلیبی جنگیں لڑی۔

ان کے ہاں محفوظ ہے جن کی 200 سال غلامی کے بعد آزادی کے لیے ہمارے قائدین نے الگ ریاستیں حاصل کی۔ ملک پاکستان حاصل کیا۔ جہاں مسلمان کسی کے غلام نہیں اور آزادی سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔

لگتا ہے مورخ اور کتب نگاروں نے محفوط مستقبل کی تعریف کے باب میں کوئی غفلت برتی تھی ہمارے ہاں ہر اس جوان کا مستقبل محفوظ سمجھا جاتا ہے جس کے پاس بھاری اسناد، بہت ہی اچھی ملازمت یا منافع بحش کاروبار ہو، اچھی گاڑی، اچھے گھر کے ساتھ ساتھ نسلوں کے لیے معقول سرمایا ہو اور یہ سب 20 سے 27 سال کے درمیان حاصل ہو۔ یہ معیار زندگی آج کے جدید انسان کا طے کردہ ہے جسے وقت کی ضرورت جیسی دلیلیں دے کر درست ثابت کیا جاتا ہے پر اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے پورے معاشرے کا نقشہ بدل چکا ہے۔

اس تعریف پہ پورا اترنے کے لیے ہمارے ملک کا ہر نوجوان اپنی زندگی سے میلوں تیز رفتار بھاگنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس میں اسکی اپنی ترجیحات کہیں پس پردہ بوسیدہ ہوگئی ہیں۔ اس میں انکا کوئی قصور نہیں۔

بفرض محال اگر اس نظریے کو درست مان بھی لیا جائے تو کیا 1400 سو سال پہلے بھی ایسا ہی تھا؟

کیا اس وقت نوجوان کام نہیں کرتے تھے؟ کیا تب لوگوں کی شادیاں نہیں ہوتی تھیں؟ کیا لوگ بھوک سے مر جاتے تھے؟ کیا کفار مسلمانوں کے کمزور معیشی حالت کے سبب غالب تھے؟ ہر گز نہیں۔

سچ تو یہ ہے زندگی کے سب معمولات کو انتہائی احسن طریق سے انجام دینے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے بے شمار معرکے سرانجام دیے، جنگیں لڑی۔ اپنی ترجیحات کو مال نہیں بلکہ دین کی بقا کو ترجیحِ اول رکھا اور نتیجتاً زندگانی کے سب معمولات بخوبی انجام پاتے گئے۔ وہ لوگ عظیم لوگ تھے۔ اللہ کے چُنے ہوئے لوگ تھے۔ اُنکی جانیں آج ہماری جانوں سے کئی گنا زیادہ قیمتی تھیں۔

آج بحصیتِ قوم اگر موازنہ کیا جائے تو تمام یورپی ممالک بشمول برطانیہ اور امریکہ کے لوگ تعلیم و شعور میں پاکستانیوں سے پیچھے ہیں۔ انکی شخصیات اَدب و اخلاقیات جیسی صفات سے قاصر ہیں۔

یہاں کے نوجوان 16 سے 17 برس کی عمر میں بنیادی اسکول چھوڑ دیتے ہیں اور اس نام نہاد جدید معاشرے میں ایک یا زائد گرل فرنڈ بنا کر 20 سے 21 سال کی عمر میں 1 سے 2 نا جائز بچے بھی پیدا کر لیتے ہیں۔

اس کے علاوہ تاعمر ملازمت بھی کرتے ہیں اور اکثر 25 سال تک پہلے والی گرل فرنڈ کو الوداع کر کہ نئی کے ساتھ تعلق قائم کرتے ہیں لیکن 25 برس کے نوجوان کے پاس زندگی کی تمام آسائشیں موجود ہوتی ہیں جنکا تزکرہ اوپر ہو چکا لیکن یہاں کے لوگ سارا خرچ یا ہفتے بھر کی کمائی فقط دو دن کی عیاشی میں اڑا دیتے ہیں۔ یا پھر کچھ سرمایہ جمع کرنے کے بعد چھٹیاں گزارنے دوسرے ممالک کا رخ کرتے ہیں اور لطف و آرام کے لیے رقم صرف کرتے ہیں۔ مزید دیکھا جائے تو یہاں کے لوگ جب 45 سے 60 برس کو پہنچتے ہیں تب بھی وہ بظاہر معقول ملازمت کر رہے ہوتے لیکن انکے بچے انکو چھوڑ کے جا چکے ہوتے ہیں کیونکہ وہ بھی ماں باپ کے نقش قدم گرلفرنڈز/بوائے فرنڈ کے پاس رہنا پسند کرتے۔ 60 برس کے بعد یہاں کے جوڑے الگ ہو جاتے اور ضعیفی میں بھی مجبوراً ملازمت کرتے یا پھر ناکارہ ہونے کی صورت میں یہاں کے قانون کے مطابق اولڈ ہومز میں بھیج دیے جاتے۔ عمر کا باقی حصہ وہ وہی پر گزار دیتے ہیں۔

اس بے مقصد زندگی کو دیکھ کر جانوروں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جِنکا مقصد کھانا، پینا، سونا اور بچے پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ ہاں ان فرنگیوں نے مسلمانوں کے قلوب میں بھی فکر معاش اس قدر پیوست کر دی ہے جس کے لیے ہم نے بھی مقصد کو بھلا دیا ہے۔

دوسری جانب ایک پاکستانی نوجوان بچپن سے لے کر 25 26 سال تک اعلٰی تعلیم حاصل کرنے میں صَرف کر دیتا ہے۔ اس دورانیے میں نا جانے کتنے اساتذہ سے نہ صِرف تعلیم بلکہ تجربات حاصل کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ 26 سال تک نوجوان صِرف اور صِرف سیکھتا ہے۔ عملی زندگی میں قدم رکھنے سے پہلے اسکی ذہنی صلاحیتوں اور شعور کو عروج مل چکا ہوتا ہے۔ 2 3 سال ملازمت یا کاروبار کرنے کے بعد پاکستانی نوجوان کی شادی کرائی جاتی ہے جس کے لیے وہ شعوری طور پر تیار ہوتا ہے۔ بظاہر ایسا نوجوان فرنگی جوان سے معیشی مقابلے میں پیچھے نظر آتا لیکن عقل و شعور، ادب و اخلاقیات کے معاملے میں پاکستانی جوانوں کا کوئی ہمسر نہیں۔

قارین اس بات کو تسلیم کرنے میں خفا ہو رہے ہوں گے لیکن تجربات یہ کہتے ہیں کہ نہ صرف فرنگی بلکہ دوسرے ممالک کی نصبت بھی پاکستانی جوانوں کا، ذہنی معیار، علمی و عملی صلاحیتیں، ادب و اخلاقیات، مذہبی شعور کئی گنا بھر کر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پاکستانی انفرادی طور پر ترقی یافتہ ہیں اور بحصیتِ قوم ایک منفرِد پہچان رکھتے ہیں لیکن عالمی دنیا میں بدنامی اور بےتوجہی کا سبب حکومتی کمزوریاں، بدعنوانی، دہشت گردی اور کفار کے مسلمانوں سے نفرت آمیز رویے ہیں۔ اس سب کے قطع نظر مسلمانوں نے ہمیشہ سے اپنا الگ وقار پایا جو تا آخر برقرار رہے گا۔

لیکن اس وقار کی وجہ ایک با مقصد طرزِ زندگی ہے وہ مقصد دینِ اسلام نے ہمیں سکھایا، وہ مقصد جسکے لیے ہم صدیوں سے انبیا و رسل کی پیروی کرتے آرہے ہیں، وہی مقصد خالق اور مخلوق کے تعلق کا عرفان عطا کرتا ہے۔ مسلمانوں پر اگر عروج رہا تو وہ اسلام کی وجہ سے تھا اور آج اگر زوال ہے تو اسلام سے دوری کے موجب ہے۔ آئندہ کے مستقبل کا دارومدار بھی اسلام سے وابستگی پر منحصر ہے پر افسوس ہم اس مستقبل کو کہیں اور تلاش کر رہے ہیں جہاں سراسر گمراہی ہے۔

Check Also

Aazmate Raho

By Syed Mehdi Bukhari