Do Mard Do Kahaniyan
دو مرد دو کہانیاں

پہلے ایک بندہ، پھر دو بندے، پھر تین۔ لا الہ الا اللہ جیب میں ایک روپیہ نہیں۔ تیرہ ضلعے پار کرکے پہنچا ہوں۔
پہلے دو ٹرائی ناکام، تیسری کامیاب۔ صرف تین سیب اور ڈیڑھ لیٹر پانی کی بوتل، سترہ گھنٹے مسلس پیدل سفرکرکے پہنچا ہوں۔
یہ دو مرد دو کہانیاں نہیں ہیں بلکہ ایک بڑے سیاسی طبقے کے واسطے حقیقت ہے۔ مستند ہے۔ سچ ہے۔
اسی سماج کا ایک بڑا طبقہ اس پر یقین رکھتا ہے کہ "مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ میں حق ہوں دنیا میں آیا ہوا"۔ بات سیاست میں مذہب کارڈ کے جا بجا استعمال کی نہیں رہی۔ اب بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ ریاست مدینہ، تسبیح، کنٹینر پر کھڑے قائد کے کان میں کانا پھوسی "ذرا سا اسلامی ٹچ دے دیں "، سجدہ کرتے، نماز پڑھتے، ملنگی حلئیے و چپلی لباس والی سادگی سے اَٹا بیانیئہ تو کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ جلسوں کے نام "امر بالمعروف" وغیرہ وغیرہ رکھنے سے بات آگے بڑھ گئی ہے۔
جماعت کے ترجمان شیخ وقاص اکرم فرما چکے ہیں کہ "ہمارا فتح مکہ کا ماڈل ہے۔ قائد محترم نے کہا ہے ہم اقتدار میں آئے تو کسی سے بدلہ نہیں لیں گے، عام معافی ہے"۔ پتہ نہیں آپ جانتے ہیں یا نہیں کہ فتح مکہ کا ماڈل غیر مسلم یا کفار کے لیے تھا۔ یعنی یہ سمجھ لیا گیا ہے اور سمجھا دیا گیا ہے کہ ہم مومن ہیں باقی سب مخالف کافر۔۔
اب بات تو یوں ہے کہ مخالف ملک سے بھاگے تو "فرار ہوگیا"، "نس گیا"، "بھاگ گیا" وغیرہ ہے۔ اپنا کوئی ملک سے بھاگے تو "ہجرت"۔ حضور پاک کی مدینہ کو ہجرت اور اصحاب کی حبشہ کو ہجرت کی مثالیں سنائیں جاتیں ہیں۔ جان کا بچاؤ فرض ہے وغیرہ وغیرہ کی گردان ہے۔ ٹھیک ہے۔
ایک نامی گرامی سیاسی مفکر سے اینکرنے سوال پوچھا کہ آج خط لکھے جا رہے ہیں جن میں "اُن" کو نظام، عدلیہ و عوام کی بابت پند و نصوح کی گئی ہے۔ اگر کل کو اس خط کے جواب میں ہی کوئی مثبت نتیجہ نکل آتا ہے اور آپسی کشیدگی ختم ہو کر پھر سے بھائی چارے میں ڈھل جاتی ہے تو تب آپ کا مؤقف کیا ہوگا؟ جواب ملا "صلح حسن ہمارے لیے ایک مثال کی صورت موجود ہے۔ معاملات خوش اسلوبی سے طے ہو جاتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے"۔
بات اب "فتح مکہ"، "ہجرت" اور "صلح حسن" تک ہی تھم جائے تو بھی غنیمت ہے۔ مجھے لگتا ہے اب یہ مزید آگے بڑھتی جائے گی۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر اللہ نے آخر الزماں رسول ﷺ بھیج کر سلسلہ ہدایت تمام نہ کیا ہوتا تو کیا ہوتا۔۔
آپ جو چاہیں کریں اور کہیں۔ کیری آن۔ میری التجا یہ رہتی ہے کہ سیاست کو سیاست رکھیں اور بس۔ میرا یہ بھی ماننا ہے کہ کسی بھی سیاسی طبقے سے کلام وقت کا ضیاع ہوتا ہے کیونکہ پارٹی کی بنیادوں پر لوگ اپنی لائن کھینچ چکے ہوتے ہیں، اپنی سائیڈ منتخب کر چکے ہوتے ہیں اور پھر کون ہے جو اپنی لائن کو غلط سمجھے؟ پھر بھی کوشش ہوتی ہے کہ شاید کوئی ایک دو ہی سمجھ پائے اور ایسے سیاسی رویوں سے دوری اختیار کر سکے۔ self righteous کی سوچ دراصل ذہنی ارتقاء کی نفی ہوتی ہے۔