Aik Sadiyon Purani Sazish
ایک صدیوں پرانی سازش

بائبلی کتب کی ترتیب و تدوین کب اور کیسے کی گئی؟ گوگل کے۔۔ www.GotQuestions.org سے مندرجہ بالا مضمون سے چند اقتباسات (بائبلی سوالات کے جوابات)
اُن کتابوں کو متعارف اور بیان کرنے کے لیے جو خُدا کی طرف سے الہامی ہیں "کینن" کی اصطلاح کو استعمال کیا جاتا ہے اور اِسی وجہ سے یہ کتابیں بائبل مُقدس کا حصہ ہیں۔ بائبلی کینن کو واضح طور پر پہچاننے میں مسئلہ یہ ہے کہ بائبل واضح طور پر ہمیں کتابوں کی کوئی ایسی فہرست فراہم نہیں کرتی جو اُس کا حصہ ہیں یا حصہ ہونی چاہییں۔
ابھی یہ طے کرنے کے لیے کہ کونسی کتابیں کینن کا حصہ ہونگی(یعنی بائبل کی کتابوں کی ترتیب و تدوین کے لیے) سب سے پہلے یہودی ربیوں اور اُن کے علماء نے ایک سلسلہ شروع کیا اور ایسا ہی ابتدائی کلیسیا کے مسیحی علماء نے بھی کیا اور اُن کی اِس کوشش میں بالآخر خُدا نے اُن کی مدد اور رہنمائی کی اور حتمی فیصلہ خود خُدا کی ذات نے دیا کہ کونسی کتابیں الہامی ہیں اور کونسی الہامی نہیں ہیں۔ اِس سارے معاملے میں خُدا نے اپنے پیروکاروں کو اپنی خاص ہدایت سے یہ فیصلہ کرنے میں مدد کی کہ کونسی کتابیں اُس کے کلامِ مُقدس میں شامل کی جانی چاہییں۔
ویکپیڈیا میں مضمون انجیل (ارتقا اور تشکیل) میں پروفیسر، جون رچچز کے بقول اکثر ماہرین کو اس بات پر شک ہے کہ اناجیل عینی شاہدین نے اِرقام کی تھیں۔ مذہب پر اِرقام کرنے والی دور حاضر کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مصنفہ کیرن آرم سٹرانگ کا کہنا ہے کہ "ہمیں بالکل نہیں معلوم کہ اناجیل کس نے اِرقام کی ہیں۔ جب وہ پہلی بار ظہور پزیر ہوئیں تو انہیں گمنام تحریروں کی حیثیت سے پھیلایا گیا۔ بعد میں انہیں رفتہ رفتہ ابتدائی دنوں کے کلیسیا کی اہم شخصیتوں سے منسوب کیا جانے لگا۔۔
اس پر اکثر ماہرین متفق ہیں کہ چاروں اناجیل 60 عیسوی سے لے کر 100 عیسوی کے درمیان میں اِرقام کی گئیں، لیکن اس وقت تک ان میں موجود داستان اس طرح مسلسل نہیں تھی۔ 170 عیسوی میں ططیان نے بھی ایک کوشش کی، اس نے متی، مرقس، لوقا اور کچھ زبانی روایات کو لے کر ایک ہی متفقہ (بلا تکرار واقعات) ترتیب دی۔ اس دور میں کئی اناجیل کا ثبوت ملتا ہے، خود لوقا کی پہلی آیت میں ہی اس بات کا اقرار ہے کہ بہتوں نے ایسی تحاریر لکھی ہیں۔ (وکیپیڈیا)
مندرجہ بالا ایک مختصر تعارف ہے جو انجیل (انگریزی: Gospel اور(بائبل) سے متعلق ہے۔۔ انجیل خاص طور پر حضرت عیسیؑ کے اقوال کو ان کے بعد ان کے حوارییوں نے 4 انجیل ترتیب دیں اور یہ 60 عیسوی سے 170 عیسیوی کے درمیان تدوین۔ وترتیب دی گئیں۔۔ چار اناجیل ہی کو عام طور پر مسیحی بڑے فرقے مانتے ہیں، مگر اس کے علاوہ دیگر کئی اناجیل کا ثبوت بھی موجود ہے۔ عہد نامہ جدید میں چار اناجیل کو شامل کیا گيا ہے جن میں سے پہلی تین کو اناجیل متوافقہ کہتے ہیں کیونکہ ان میں واقعات کے ایک ہی سلسلہ کے خلاصہ جات دیے گئے ہیں۔ چوتھی انجیل میں دوسری قسم کے واقعات کا بیان ہے۔۔
یوال نوح ہراری ایک متنازعہ ترین شخص ہے مگر آج کے دور میں اس کی شناخت ایک بیسٹ سیلر تاریخ دان اور جدید مصنف کے طور پر ہے۔۔ یہ اپنی نئی کتاب Nexus (a brief history of information networks from the stone age to AI) میں رقمطراز ہے کہ "بائبل اور قران جیسی مقدس کتابیں انسانی خطروں سے بچنے کے لئے ایک ٹیکنالوجی ہیں اور یہودیت، عیسائیت، اسلام جیسے کتاب کے مذاہب اسی تکنیکی نمونے کے گرد تعمیر کیے گئے ہیں۔۔ "
اور پھر اس کو بنیاد بنا کر بائبل، انجیل اور تورات کے مرتب ہونے کی تاریخ کو موضوع بنا کر یہ بحث کرتا ہے کہ "سب سے واضح طور پر یہ کون فیصلہ کرتا ہے کہ مقدس کتاب میں کیا شامل کیا جائے؟ پہلی کاپی آسمان سے نہیں اتری اسے انسانوں نے مرتب کرنا تھا۔ ، پھر بھی وفاداروں کو امید تھی کہ اس مشکل مسئلے کو ایک بار اور ہمیشہ کے لئے حل کیا جاسکتا ہے، اگر ہم عقلمند اور قابل اعتماد ترین انسانوں کو اکٹھا کر سکتےہیں۔۔ لیکن ان عقلمند اور قابل اعتماد انسانوں کا انتخاب کون کرے گا؟ کس معیار پر کیا جائے گا اور کیا ہوگا اگر ان کے درمیان اتفاق رائے نہ ہو سکا۔۔ "
مصنف تمام انجیل مرتب کرنے والے حواریوں اور یہودی ربیوں کو نقطہ تنقید بناتا ہے اور بتاتا ہے کہ الہامی کتاب کو مرتب کرنے والوں کی شخصیت متنازعہ ہے اور کتب کی ایک کاپی آسمان سے نہیں اترا لہذا اسے ترتیب دیا گیا یہ فعل ناقابل اعتبار انسانوں اور اداروں نے سر انجام دیا لہذا اس میں تبدیلی کی گنجائش ہے۔۔ اس تمام گفتگو میں وہ قران کا کوئی حوالہ نہیں دیتا مگر الہامی کتب اور ان سے منسلک شخصیات کو متنازعہ بناتا ہے۔۔ جو کہ عیسائیت اور یہودیت نے اپنی کتب کے مرتب کرنے کی تاریخ میں دہرایا۔
یہی کھیل مغرب نے ساتویں عیسوی میں ظہور پزیر ہونے والے الہامی مذہب اسلام کی تاریخ میں سب سے پہلے پیغمبر اسلام کی ذات اقدس اور پھر ان کے مقدس ترین ساتھیوں صحابہ کرام کی شخصیات کو مختلف فرقوں اور مسالک میں متنازعہ بنا کر اس کے بعد ان ہستیوں کے ہاتھوں تدوین قران کے عمل کو مکمل کرنے کی داستان گھڑ کر۔۔ پورے اسلام کی عمارت کی بنیاد قرآن پاک کی تدوین پر تنازعات کو جنم دیا گیا۔۔ اسلامی تاریخ میں مستشرقین اور عیسائی و یہو دی لابی نے 1400 سے جو شر انگیزی کی ہے اس کا خلاصہ آپ کو مصری مصنف محمد حسین ہیکل کی سیرت پاک پر لکھی کتاب " حیات محمد " اور شبلی نعمانی کی کتاب "سیرت النبی" میں ملے گا۔۔
اگر آپ مندرجہ بالا مضمون کو پڑھیں اور اس تحریر کا موازانہ قران پاک کی تدوین اور دور سے کریں تو آپ حیران کن مماثلت پائیں گے کہ مسلمانوں نے بھی اپنی کتاب کی تدوین بعد میں خلفائے راشدین کے دور میں مکمل کی اور اس پر حجاج بن یوسف نے اعراب لگائے اور یہ بات 60 ہجری کے قریب قریب تک پہنچ جاتی ہے، حضرت عثمانؓ تک آتے آتے تمام جلیل القدر صحابہ کرام خلفاء راشدین کی شخصیات کو پہلے متنازعہ بنایا گیا اور پھر قران پاک کی تدوین کی کہانی صحابہ کرام کے ہاتھوں ترتیب دے کر امت میں انتشار کی راہ ہموار کی۔۔ جس سے معاذ اللہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ نبی کریمﷺ نے اپنی وفات سے قبل اپنا مشن نامکمل چھوڑا اور باقی کام تدوین اور آیات کو یک جا کرنا بعد میں کیا گیا جو کہ قرآن پاک کی آیت اَلُیَوُمَ اَكُمَلُتُ لَكُمُ دِیُنَكُمُ وَ اَتُمَمُتُ عَلَیُكُمُ نِعُمَتِیُ وَ رَضِیُتُ لَكُمُ الُاِسُلَامَ دِیُنًاؕ (آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا) کے منافی ہے اور نبی کریمﷺکے ذات اقدس پر ایک بہتان عظیم ہے کہ نبی آخری الزمان اپنا کام نامکمل چھوڑا گئے تھے جسے بعد کے صحابہ کرام نے مکمل کیا اور کئی اسلامی فرقے تو اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر کہنے لگے کہ اس قران کے کچھ حصے جان بوجھ کر چھپا لئے گئے۔۔ جو کہ خدا کی ذات پاک پر الزام ہے کہ وہ اپنی کتاب کی حفاظت کا اہتمام (اللہ کریم معاف فرمائیں) نہیں کر پائے۔۔ جو کہ درجہ اسلام سے ہی خارج کرنے کو کافی ہے۔ جدید تحقیق سے یہ بات واضح اور ثابت ہے کہ قرآن پاک کی تدوین نبی کریمﷺکے زمانہ پاک میں مکمل کر دی گئی تھی۔۔ یہ بعد کی غیر اسلامی اور مغربی ایجنڈا کے تحت اسلامی لٹریچر میں یہ بات شد ومد سے ڈالی گئی کہ قرآن پاک کی تدوین کو متنازعہ بنایا جا سکے۔۔