Tuesday, 18 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Saqib
  4. Business Mein Brake Lagane Ka Fan

Business Mein Brake Lagane Ka Fan

بزنس میں بریک لگانے کا فن

محترم دوستو! ایک بار پھر تاخیر کی معذرت، احباب کی محبت کا شکریہ اور اپنے ساتھ ایک کمٹمنٹ کہ کالم لکھنے کا تسلسل برقرار رہے۔ آج کے کالم کا آغاز شکاگو میں 1923 میں اس دور کے مشہور ترین کاروباری لوگوں کی ملاقات کی سٹوری سے کرتے ہیں۔ ایج واٹر بیچ ہوٹل میں ہوئی اس ملاقات میں موجود نمایاں لوگوں میں سے سات اشخاص کا تذکرہ کرتے ہیں۔

1۔ چارلس ایم شواب، بیتھلیہم اسٹیل کے صدر

2۔ رچرڈ وٹنی، نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے صدر

3۔ البرٹ فال، امریکہ کے سابق وزیر داخلہ

4۔ جیسی لیورمور، مشہور اسٹاک مارکیٹ کے تاجر

5۔ لیون فریزر بینک فار انٹرنیشنل سیٹلمنٹس کے صدر

6۔ ہاورڈ ہاپسن، امریکہ کی سب سے بڑی گیس کمپنی کے صدر

7۔ ایور کریوگر "میچ کنگ"، دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل

یہ تمام افراد اپنی کامیابی کے عروج پر تھے، لیکن چند ہی سالوں میں ان کی قسمت نے پلٹا کھایا اور ان میں سے بیشتر بدترین انجام کو پہنچے۔

چارلس شواب قلاش ہو گئے۔ وہ بیتھلیہم اسٹیل کے بانی تھے، لیکن غلط سرمایہ کاری اور شاہانہ طرزِ زندگی نے انہیں غربت میں دھکیل دیا۔

رچرڈ وٹنی کو دھوکہ دہی کے الزام میں جیل بھیج دیا گیا۔

البرٹ فال کو کرپشن میں ملوث ہونے پر قید کا سامنا کرنا پڑا۔

جیسی لیورمور نے کئی بار اپنی دولت گنوا دی اور آخرکار خودکشی کر لی۔

لیون فریزر نے بھی خودکشی کر لی۔

ہاورڈ ہاپسن دھوکہ دہی کے جرم میں گرفتار ہوا اور ذہنی مریض بن گیا۔

ایور کریوگرمالی اسکینڈلز کا شکار ہوئے اور خودکشی کر لی۔

اس کہانی کے اندر بہت سے سبق پوشیدہ ہیں میں نے مختلف کتابوں میں سٹوری پڑھی اور مصنفین نے اپنے انداز میں ان کی ناکامی کی وجوہات بیان کیں۔

مائنڈ سائنسز کو بیچ میں لے کر آتے ہیں اور ایک نئے انداز میں ان کے کاروباری سفر کو سمجھتے ہیں۔ یہ تمام لوگ ویژنری تھے کاروبار کرنے کا فن جانتے تھے لیکن انہوں نے اپنی لمٹس کو لاک نہیں کیا تھا۔ بزنس میں بریک پر پاؤں رکھ کر زندگی کو انجوائے کیا جائے۔ ایسا کوئی لفظ ان کی ڈکشنری میں نہیں تھا۔

کل تھکے ہارے پرندوں نے نصیحت کی مجھے
شام ہو جائے محسن تو تم بھی گھر جایا کرو

اپنی لمٹس کو لاک نہ کرنے کی صورت میں آپ ایک ایسی ریس کا حصہ بن جاتے ہیں جس کی کوئی فنشنگ لائن نہیں ہوتی۔

تاریخ کے جھروکوں سے اس کو مزید گہرائی میں سمجھتے ہیں۔۔

نادر شاہ 22 اکتوبر 1688ء کو ایران کے علاقے خراسان میں پیدا ہوا اور 1736ء سے لے کر اپنی موت 1747ء تک ایران کا طاقتور بادشاہ رہا۔ وہ پہلا بادشاہ تھا جس کی اپنی چھ لاکھ کے قریب منظم فوج تھی۔ اس نے اپنی زندگی میں بے تحاشا فتوحات حاصل کیں، ترک سلطنت کے کئی علاقے، موجودہ کرغستان، داغستان، آذربائجان، آرمینیا، افغانستان، بخارا، خیوہ، پشاور، لاہور اور برصغیر کے کئی علاقے فتح کیے، حتٰی کہ دلی میں محمد شاہ رنگیلا کو بھی شکست دے کر شاہجہاں کا مشہور تخت طاؤس اور کوہ نور ہیرا تک لے گیا۔

اتنی فتوحات کے باوجود نادر شاہ مزید علاقے فتح کرنے کی حرص میں مبتلا رہا، داغستان کی شورش کو دبانے میں ناکامی پر وہ چڑچڑا اور شکی مزاج ہوگیا۔ اسی دوران اس کے ایرانی اور افغانی فوج پر مشتمل اس کے اپنے ہی جرنیل اس کے خلاف ہو گئے۔ وہ ہر رات اپنی حفاظت کے لیے اپنی تلوار پاس رکھتا اور لوہے کا لباس پہن کر اپنے خیمے میں سوتا لیکن اس کے باوجود وہ اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں 1747 میں کوچن کے علاقے میں اپنے خیمے میں مارا گیا۔

اس کے مرنے کے صرف تین گھنٹے کے بعد ہی اس کی ساری فوج وہاں سے غائب ہو چکی تھی، اس کی لاش خیمے میں پڑی تھی۔ ایسا کیوں ہوا اور اس سارے اقتدار اور فتوحات سے اسے کیا ملا؟ وجہ بہت سادہ تھی اس نے اپنے اقتدار کی کوئی لمٹ مقرر نہیں کی تھی، لمٹ کو لاک نہیں کیا تھا۔ سکندر اعظم تھا یا امیر تیمور، ہٹلر تھا یا نپولین بونا پارٹ یہ سب بھی اپنے اقتدار اور فتوحات کو زیادہ سے زیادہ علاقوں تک پھیلانے کے خبط میں مبتلا رہے اور مارے گئے۔

انہوں نے بھی اپنی فتوحات کی کوئی لمٹ مقرر نہیں کی تھی۔ اسی طرح کوئی بھی انسان جو بھی کام کر رہا ہے اگر وہ اپنے کام کی کوئی لمٹ مقرر نہیں کرتا تو پھر کبھی پر سکون زندگی نہیں گزار سکتا۔

اب یہ پرنسپل 2025 میں ہم کس طریقے سے اپلائی کر سکتے ہیں۔

سب سے پہلے آپ اپنی منتھلی انکم کے لحاظ سے اپنے کیٹگری نکالیں اگر آپ کی ماہانہ انکم ڈھائی لاکھ ہے تو آپ ون سٹار ہیں پانچ لاکھ ہے تو ٹو سٹار 11 لاکھ ہے تو تھری سٹار 17 لاکھ ہے تو فور سٹار 22 لاکھ ہے تو فائیو سٹار اور اگر 28 لاکھ ہے تو آپ سکس سٹار ہیں آپ نے اپنے سٹار کو پہچاننا ہے اور اس کے لحاظ سے اپنی لائف کو مینج کرنا ہے اگر آپ سکس سٹار ہیں یعنی آپ باقاعدگی سے 28 لاکھ روپیہ ہر مہینے کما رہے ہیں تو نہ صرف پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں آپ ایک لگزری لائف گزار سکتے ہیں فرض کیا آپ تھری سٹار ہیں آپ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں تو وہیں بریک لگائیں 11 لاکھ کی انکم کے لحاظ سے گاڑی رکھیں گھر بنائیں دیگر اخراجات کا بجٹ بنائیں اور لائف کو انجوائے کریں۔

اسی فلسفے کو ہم گہرائی میں مشہور ٹریولر اور رائٹر الطاف احمد عامر کی زبانی سمجھتے ہیں۔ وہ جاوید چوہدری کی ایک ورکشاپ کے حوالے سے لکھتے ہیں۔

"

اگر آپ اپنی زندگی کو خوشگوار اور پر سکون بنانا چاہتے ہیں تو پھر 10 چیزوں کی لسٹ کو لاک کر لیں اور وہ دس چیزیں یہ ہیں خوراک، لباس، مکان، صحت، تعلیم، اپنی سواری اپنی سیونگ لگثری لائف اسٹائل سیاحت اور انٹر ٹینمنٹ۔

جب تک ہم اپنی خوراک کی ایک حد مقرر نہیں کرتے اس وقت تک اگر 10 قسم کے کھانے بھی ہمارے سامنے پڑے ہوں تو ہمیں ناکافی محسوس ہوتے ہیں۔ ہماری وارڈروب میں کتنے کپڑے پڑے ہوتے ہیں ہم نے کبھی اس کا حساب نہیں کیا اور درجنوں کے حساب سے جو سوٹ رکھے ہوتے ہیں دوسری باران کے استعمال کی باری نہیں آتی، لیکن اس کے باوجود ہم نئے سے نیا سوٹ خریدتے رہتے ہیں۔

ہم نے کبھی اپنی زندگی میں یہ سوچا کہ ہمیں رہنے کے لیے مکان کیسا اور کتنا بڑا چاہیے؟ ہم اگر ایک مکان بنا لیں تو اس سے مطمئن نہیں ہوتے اور مزید گھر بنانے کے خبط میں مبتلا رہتے ہیں۔ ہمیں اپنی صحت کو کسی حد تک برقرار رکھنا چاہیے اور اس کے لیے کس قسم کی کتنی خوراک چاہیے، ہمیں کتنی واک اور ایکسر سائز کرنی چاہیے، ہمیں تو اس بات کی لمٹ کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح آپ نے دیکھا ہوگا کہ لوگوں نے چار چار، پانچ پانچ مضامین میں ماسٹرز کر رکھا ہوتا ہے، کون سی ڈگری سے انہوں نے کیا فائدہ اٹھانا ہے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا۔

ایف اے کی ڈگری ہو یا ماسٹرز کی، انجینئرنگ کی ڈگری ہو یا ڈاکٹریٹ کی، اس کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ اگر کسی ڈگری کے حصول کا دورانیہ مقرر نہ ہو تو لوگ 20,20 سال کوئی ڈگری نہ لے سکیں۔ یہی وجہ ہوتی ہیں کہ جو شخص پوری زندگی پڑھتا رہتا ہے اور کئی مضامین میں ایم۔ اے کرتا رہتا ہے وہ کبھی کامیاب زندگی نہیں گزار سکتا۔

ذرائع آمد و رفت کے لیے ہمارے پاس کون سی سواری ہونی چاہیے، اس کی بھی ہمیں کوئی نہ کوئی حد مقرر کرنی چاہیے ورنہ گھر میں کھڑی بے شمار گاڑیاں بھی نا کافی محسوس ہوتی ہیں۔

سید بابر علی جو پیکجز مال اور لمز جیسے ہی بڑی یونیورسٹی کے مالک اور پاکستان کے مشہور بزنس مین ہیں، 98 سال کی عمر میں بھی صحت مند اور خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں، وہ اپنے استعمال میں صرف ایک ہی گاڑی رکھتے ہیں اور ہر تین سال بعد اس گاڑی کا نیا ماڈل خرید لیتے ہیں یعنی انہوں نے گاڑی کی بھی ایک حد مقرر کر رکھی ہے۔ لہٰذا ہمارے پاس گاڑی کون سی اور کتنی ہونی چاہیے، اس کی حد مقرر کرنا بھی ضروری ہے۔

پیسہ انسان کی ضرورت ہے اگر کوئی انسان یہ کہے اسے پیسا نہیں چاہیے تو وہ یقیناََ جھوٹ بول رہا ہوگا۔ پیسہ برا نہیں کیونکہ آج کل ہم پیسے سے ہی اپنی خوشیاں اور کمفرٹس خریدتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس پیسہ ہونا کتنا چاہیے؟

ہمیں کسی حد تک شاہانہ زندگی گزارنی چاہیے، اس بات کی بھی ایک حد مقرر کر لینی چاہیے ورنہ آپ اپنی سیونگ کو یوں ہی برباد کر دیں گے۔ کتابوں کے علاوہ سیاحت بھی علم حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے، ایک چینی کہاوت ہے کہ اگر آپ علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو کم از کم ایک ہزار کتا ہیں پڑھنی چاہیے اور 10 ہزار میل کا سفر طے کرنا چاہیے۔

ظاہر ہے یہ اس زمانے کی بات ہے جب کتابیں ہاتھ سے لکھی جاتی تھی اور سفر گھوڑوں، گدھوں اور خچروں پر کیے جاتے تھے لیکن آج پرنٹنگ پریس اور کمپیوٹر کا دور ہے اور ذرائع آمد و رفت بھی بدل چکے ہیں، آج کتابوں اور میل کو ہمیں 10 سے ضرب کر لینی چاہیے۔ ہم نے کون سی اور کتنی کتابیں پڑھنی ہیں اور کہاں کہاں کی سیاحت کرنی ہے اس کی بھی ایک لمٹ ضرور مقرر کرنی چاہیے ورنہ "جہاں گرد" کہلوا کے اپنے آپ کو مشہور تو کر سکتے ہیں لیکن دل کا سکون میسر نہیں آئے گا۔

دسویں اور آخری چیز انٹرٹینمنٹ ہے، ہمیں کن باتوں سے خوشی ملتی ہے اور ہماری زندگی میں انٹر ٹینمنٹ کا عنصر کسی حد تک ہونا چاہیے یہ طے کرنا بھی ضروری ہے۔

"

اور آخر میں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آپ ایک سے دو دکانیں دو سے چار فیکٹریاں ضرور بنائیں لیکن اس میں آپ کا اصل مقصود یہ ہو کہ میں یہ ایکسٹرا کام خلق خدا کی بہتری کے لیے کر رہا ہوں۔ اس صورت میں یہ کام آپ کو سکون قلب کی دولت سے نوازے گا۔

About Muhammad Saqib

Muhammad Saqib is a mental health consultant who has been working in the fields of hypnotherapy, leadership building, mindfulness and emotional intelligence for over ten years. Apart from being a corporate trainer, he is involved in research and compilation and documenting the success stories of Pakistani personalities in the light of Mindscience. Well-known columnist and host Javed Chaudhry is also a part of the trainers team.

Check Also

Zindagi Badal Chuki Hai

By Syed Mehdi Bukhari