Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Aziz
  4. Zalim Baap

Zalim Baap

ظالم باپ

ایک بار ایک لڑکا اپنے دوستوں کے ساتھ برگر کھانے گیا۔ سب نے مہنگے برگر آرڈر کیے۔ وہ لڑکا صرف پانی کا گلاس مانگ کر بیٹھ گیا۔ دوستوں نے پوچھا: "تم کچھ کھاتے کیوں نہیں؟" وہ بولا: "میرے ابو سارا دن مزدوری کرتے ہیں، وہ پیسے بچا رہے ہیں تاکہ میرے یونیورسٹی کی فیس دے سکیں۔ میں کیسے برگر کھا سکتا ہوں؟"

ظالم باپ شاید آپ کو یہ الفاظ مناسب نہ لگیں، یہی کیفیت میری بھی ہے مجھے بھی یہی محسوس ہو رہا ہے کہ یہ الفاظ مناسب نہیں لیکن کیا کریں حقیقت بیان کرنا مجبوری ہے، ظلم کی تعریف کچھ یوں کی گی ہے "جس شےکا جو مقام ہے اس کو اس جگہ سے ہٹا دینا ظلم کہلاتا ہے"، مثلاََ اگر آپ پر دو اشخاص کے حقوق لازم تھے اور آپ نے صرف کسی ایک کو ترجیح دی اور دوسرے کا جو مقام تھا اس کو آپ نے وہ نہ دیا تو یہ ظلم میں آتا ہے۔

ظالم باپ وہ شخص ہوتا ہے جو ظلم کرتا ہے کس کے ساتھ؟ اپنے ساتھ جی ہاں اپنے ساتھ، اس کے جو حقوق ہوتے ہیں وہ اپنے نفس کو پورے حقوق نہیں دیتا، مثلاََ اگر بھوک لگی ہو تو کھانا نہیں کھائے گا، کیوں جی، کیونکہ اولاد کے کھانے کا بندوبست بھی کرنا ہے، اگر کوئی چیز پسند آگی ہو تو اس کو نہیں لینا، کیوں، کیونکہ بچوں کے لئے کپڑے لینے ہیں، بچوں کے لئے جوتے لینے ہیں۔ اولاد جیسی بھی ہو لیکن والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اولاد کے منہ میں نوالا ڈالنے کے بارے میں سوچیں گے۔ شاعر نےکہا تھا:

جو تیری جستجو میں چھوڑ دیا
اس کا نعم البدل تو تو بھی نہیں

باپ وہ شخص ہوتا ہےکہ اگر اس کے اختیار میں ہو تو وہ اپنی عمر کاٹ کر اپنے بچوں کی عمر میں شامل کروا دے، باپ بیچارہ تو کسی کے سامنے رو بھی نہیں سکتا، اولاد رو سکتی ہے، بیوی رو سکتی ہے لیکن باپ کسی کے سامنے نہیں رو سکتا، وہ بیچارہ اندر ہی اندر گھٹتا رہتا ہے، لیکن اتنا ہونے کے باوجود بھی کچھ بچوں کی طرف سے یہ بات سننے میں آتی ہے کہ ہمارے والد نے ہمارے لئے کیا ہی کیا ہے ہم پر غصہ کرتے ہیں، ہم پر سختی کرتے ہیں۔

معذرت لیکن یہاں کچھ خطا والد کی طرف سے بھی ہوتی ہے کہ والد کو چاہیئے کہ وہ جو ظلم اپنے پر کرتا ہے وہ اپنی اولاد کو بتاتا رہے کہ آج میں کھانا نہیں کھا سکا، یا آج کپڑے خریدنے گیا لیکن کپڑے نہیں خریدے تاکہ تمہارے لئے کپڑے خرید سکوں، اولاد کو وقتا فوقتا جتاتا رہے تاکہ اولاد کو بھی احساس ہو۔

دوسری بات یہ کہ والد کو غصہ آتا ہے چلیں اس بات کو سمجھ لیتے ہیں کہ باپ کو غصہ کیوں آتا ہے اس کی تین بڑی وجوہات ہوتی ہیں۔

1) جب باپ پیسے کا ضیاع دیکھتا ہے، جب باپ یہ دیکھتا ہے کہ گھر کی لائٹس دن کو بھی جلی ہوئیں ہیں، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ آن ہے اولاد کو کوئی فکر نہیں تو اس وقت وہ غصہ کرتا ہے، اس وقت بھی والد صرف اس لئے غصہ کرے گا اگر باپ مالی مسائل کا شکار ہوگا، اگر باپ مالی مسائل کا شکار نہ ہو تو پھر باپ کا غصہ آپ کو کم ہی دیکھنے میں ملے گا، کبھی کبھار تو باپ مالی مسائل کا شکار ہونے کے باوجود بھی آپ سے اظہار نہیں کرے گا۔

2) جب باپ آپ کی لاپرواہی کو دیکھے گا، کہ بیٹادن کو بارہ بارہ بجے اٹھتا ہے تو باپ اس پر غصہ کرے گا، کیوں، کیونکہ باپ کو اس کے مستقبل کی فکر ہے کہ یہ اگر لاپرواہ رہا تو اسے بہت نقصان ہوگا، اگر اسی طرح لاپرواہی سے گاڑی چلاتا رہا تو بہت نقصان ہوگا، بائیک تیز چلائے گا تو اپنا نقصان کرے گا وغیرہ وغیرہ۔

3) بچے کے غیر ضروری خواہشات کو پورا کرنے کی ضد کی وجہ سے، کیونکہ غیر ضروری خواہشات کو پورا کرنے کی ضد بچے کو مستقبل میں مسائل سے دوچار کر سکتی ہیں۔

اب آتے ہیں اس کے حل کی طرف ہمیں چاہئےکہ سب سے پہلے تو ہم باپ کے درد کو سمجھیں کہ والد صاحب کس وجہ سے اتنے پریشان ہوتے ہیں اور اس پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کریں، ہم ان کے پاس بیٹھیں ان سے بات کریں، ان سے پوچھیں کہ How can I help you کہ بابا جانی میں آپ کی کیسے خدمت کر سکتا ہوں یہ ایسا جملہ ہوتا ہے کہ جو ہر باپ سننا چاہتا ہے لیکن ہر باپ سن نہیں پاتا، دوسرا یہ کہ اگر آپ ان سے دور ہیں تو انھیں کال کئے کریں، صبح اٹھ کہ روز پہلے انھیں کال یا وائس میسج کیا کریں تاکہ وہ دل سے دعائیں دیں اور آپ کی دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں۔

تیسرا اگر وہ زندہ نہیں ہیں تو ان کے لئے دعا کیا کریں یا اللہ ان کے لئے آسانیاں فرما، اگر زندہ ہوں تب بھی اپنی دعاؤں میں ایک دعا ایسی لازمی شامل کریں جو والدین کے بارے میں ہو، شریعت کی پابندی کریں تاکہ ان کو ثواب ملے۔

تمام ماؤں سے بھی گزارش ہے کہ اولاد کے سامنے باپ کو شفیق بنا کر دکھایا کریں، ظالم نہیں کیونکہ والدہ ہی کہ پاس بچہ تربیت پاتا ہے، کس سے محبت کرنی ہے کس سے نفرت کرنی ہے یہ والدہ ہی بچے کو سکھاتی ہے اگر والدہ بچے کو یہ الفاظ کہتی رہے "آنے دو پاپا کو میں بتاتی ہوں انھیں وہ خود تمہاری دھلائی کریں گے" اب آپ مجھے بتائیں کہ بچے کے ذہن میں کیا تاثر جائے گا بچہ تو یہی سوچے گا کہ لگتا ہے پاپا تو بڑے ظالم ہیں۔

آخر میں والدین سے گزارش ہے کہ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ بیٹے کی نوکر ی ایسی ہو کہ جس سے نوکری کے بعد بھی پینشن آتی رہے اور اس کے بڑھاپے کا آسرا بن جائے، لیکن مجھے اس بات پر حیرانگی ہوتی ہے کہ جو ہمارا حقیقی اسٹاپ ہے یعنی آخرت، جب آخرت کی بات آتی ہے تو والدین کو نہ اولاد کی فکر رہتی ہے اور نہ اپنی، یعنی کم از کم اتنا تو یقین ہونا چاہئے کہ عذاب حق ہے اور نماز نہ پڑھنے سے، باریک کپڑے پہننے سے عذاب ہوگا، لیکن افسوس اس بارے میں تو سنا جاتا ہے کہ والدہ نے خود بچی کو کپڑے خرید کر دئیے ہیں کہ یہ لو ہاف بازو والے کپڑے، باریک دوپٹے والے کپڑے۔ کبھی کبھار میں اس بات پر بھی کنفیوز ہوتا ہوں کہ اس میں خطا والدین کی ہے یا قصور دوکاندار کا، کیونکہ آج کل ایسے کپڑے ملنا بہت مشکل ہوگیا ہے جن کے دوپٹے بھی موٹے ہوں اور کپڑے بھی ایسے ہوں جن میں جسم نہ دکھائی دیتا ہو، بہر حال موضوع کسی اور طرف چلا گیا۔

ٹاپک کی طرف آتے ہیں جو درد دل عاجز بیان کرنا چاہ رہا تھا وہ یہ تھا کہ اگر آپ بچے کی دنیا کہ لئے مخلص ہیں، تو خدا را بچے کی آخرت کا بھی سوچا کریں، یہ بھی سوچا کریں کہ اگر نماز کا وقت ہوگیا ہے اور بچہ سویا ہوا ہے تو بچے کے سونے سے زیادہ اس کا نماز پڑھنا اہم ہے، کیونکہ اگر نماز نہیں پڑھے گا تو صرف ایک نماز چھوڑنے کی وجہ سے دو کروڑ ستاسی، اٹھاسی لاکھ سال جہنم میں جلایا جائے گا۔ عاجز کی ناقص رائے میں اگر بچے کے بیس منٹ آرام میں خلل آجائے تو وہ اس سے بہتر ہے کہ اتنے لاکھ سال جہنم میں جلے۔

ایک اللہ والے فرماتے ہیں کہ انھیں ایک شخص ملا، کہنے لگا حضرت صاحب میرے پانچ بچے ہیں، میں نے ان سب کو اعلیٰ تعلیم دی ہے، کسی کو انجینئرنگ کسی کو ڈاکٹریٹ اور پتہ نہیں کیا کیا، تو ان اللہ والوں نے کہا مجھے یہ تو بتاؤ کہ کیا کسی کو حافظ بھی بنا یا ہے، عالم دین بھی بنایا ہے، کم از کم ایک بچے کو تو ایسا بنا جاتے جو کل تمہیں غسل دے سکتا، تمہارا جنازہ پڑھا سکتا، ان میں سے تو میجورٹی ایسی ہے جو جنازہ تک بھی نہیں پڑھتی باپ کا، پڑھے بھی کیسے، آئے گا تو پڑھیں گے نا۔ اس حوالے سے میں مبارک دیتا ہوں اور سراہتا ہوں ان والدین کو جن کے بچے حافظ یا عالم دین ہیں، عاجز دنیا کی تعلیم کے خلاف نہیں لیکن ہا ںیہ ضرور ہے کہ ترجیح دین کو ہونی چاہئے، کیونکہ آخر موت ہے۔

دعا کیجئے گا کہ اللہ عاجز کے والدین، عاجز کےاساتذہ اور عاجز کے دوستوں سے ہمیشہ راضی رہے اور ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ جب ہم نبی کریم ﷺ کی بارگا ہ میں حاضر ہوں تو آپﷺ ہماری طرف مسکرا کر دیکھ دیں۔

جب روح میرے پیراہن خاکی سے نکلے
تو روضے سے آواز آئی او میرا غلام آگیا

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood