Sheeshe Ki Sargoshi
شیشے کی سرگوشی

اس کنٹریکٹ کو پڑھ لو اگر مجھ پر اعتبار نہ ہوتو۔ پہلی ہی ملاقات اور آؤٹ آف دی وے جا کے مہربانی کرنے والے ڈی جی کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات دیکھ کر سمرا دہل ہی گئی۔ نہیں سر پورا بھروسہ ہے۔ تو پھر اِدھر آؤ اور دستخط کرو۔ سمرا کو اپنے داہنے جانب آنے کا اشارہ کرتے ہوئے ڈی جی صاحب بولے۔ سمرا جلدی سے دوپٹہ سنبھالتے ہوئے ذرا سمٹ کر گھومنے والی کرسی کے دائیں جانب آکھڑی ہوئی۔ پین پکڑاتے وقت سر کی مضبوط انگلیوں سے پین چھوٹ کر نیچے جا گرا۔ سمرا پین اٹھانے کیلئے جھکی تو صاحب بھی ساتھ جھک گئے اور ہاتھ حادثاتی طور پر سمرا کی چھاتی سے چھُو گئے۔ یہ حادثات اکثر بیوروکریٹس کے دفاتر میں ہوتے رہتے ہیں۔ چھوان کچھ کھردری تھی۔ سمرا سمٹ گئی، صاحب کی نظروں نے اس کے تاثرات کا جائزہ لیا اور ہولے سے مسکرائے۔
سمرا نے کاغذات پر دستخط کئے اور شکریہ ادا کیا۔ 17 سالہ لڑکی پہلے انٹرویو اور پہلی نوکری کی وجہ سے اب مارے گبھراہٹ کے کانپ رہی تھی۔ خوش بھی تھی اور پر جوش بھی۔ صاحب کہہ رہے تھے کہ اگر کام کرنے کے گُر گاہے بگاہے اُن سے سیکھتی رہے گی تو ہو سکتا ہے اُن کی سفارش سے وہ جلدہی مستقل ہو جائے۔ صاحب تونسہ کے چھوٹے سے علاقے سے آئی لڑکی کو اعتماد بخش رہے تھے۔ سمرا کے ساتھ ایک گھنٹے کی ملاقات میں وہ یہ یقین دِلانے میں تو کامیاب ہو ہی گئے تھے کہ اُس میں کچھ خاص ہے جو اسے بہت آگے لے سکتا ہے۔
سرکاری دفتر میں بھرتیوں اور تبادلوں کی سیزن چل رہا تھا۔ ڈی جی بہت پریشر میں تھا۔ یہ طے ہو چکا تھا کس کس کو برطرف کرنا ہے کس کا تبادلہ ادھر کرنا ہے جہاں پانی بھی نہ ملے اور کس کو اپنے دستِ شفقت کے زیر سایہ رکھنا ہے۔ مگر پھر پریشر میں کیوں تھے بڑے صاحب چناؤ، جی ہاں چناؤ بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ صاحب اپنے زیر نگر سٹاف کے بارے میں ہمیشہ سے بڑے چوزی تھے۔ ہر بار یہ بھرتیوں کا مرحلہ اُن کو تھکا دیتا تھا۔
ایک تھکا دینے والا دن گزار کرچار 17 سے 22 برس کی لڑکیوں کی بھرتی آخر ہو ہی گئی تھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک خاص لڑکی۔ بہت آگے جانے والی لڑکی۔ اب کل کے شیڈول میں کچھ ملازمین کی ٹرانسفر تھی جس میں حسن سرِ فہرست تھا۔
حسن ایک عرصے سے اس دفتر میں ملازم تھا اور اس کی آنکھیں کھلی رہتی تھیں۔ آنکھیں کھلی رہنے تک تو پھر بھی ٹھیک تھا مگر اب اُس کی زبان بھی کھلنے گلی تھی۔ صاحب کو کام کے دوران سرگوشیاں پسند تھیں۔ ان سرگوشیوں کے دوران شور کا خیال ہی اُن کو ڈسٹرب کر دیتا تھا حسن شور برپا کرتا لگ رہا تھا۔
اگلے ہی دن حسن کو چپ کروا دیا گیا تبادلے کا رقعہ اس کی میز پر تھا۔
نئی لڑکیوں کا کوکام ڈی جی صاحب خود سمجھانے میں مہارت رکھتے تھے۔ چھوکروں کا کام سکھانا کونسا مشکل ہے کوئی بھی سیکھا لیتا۔ مگر یہ رنگ رنگ کے دوپٹے لہراتی لڑکیوں کی کھیپ محفوظ ہاتھوں میں جانا ضروری تھی۔
میز کے کونے کا شیشہ تھوڑا سا ٹوٹا ہوا تھا اور یہ کونا بڑا مہربان کونا تھا۔ فائزہ کو صاحب نے اندر بلایا تھا اور اس کی ٹائپنگ کی غلطیاں اس کو بتا رہے تھے۔ فائل صاحب نے گویا اپنی چھاتی سے لگا رکھی تھی۔ فائزہ کو صاف نظر نہیں آرہا تھا۔ اُس نے صاحب سے فائل مانگی۔ سر نے غضب ناک ہو کر کہا کہ لڑکی یوں غلطیاں نہیں سدھرتیں۔ ایک تو تم کو میں نے ذاتی طور پر قابل سمجھ کر ملازمت دی ہے یوں غلطیاں کرو گی تو میرے نوکری بھی جائے گی۔ تمہارے ساتھ ساتھ غلط بھرتی پر۔ جاؤ دروازہ بند کر آؤ۔ کوئی اندر نہ آئے اور یہیں میرے کمپیوٹر پر کام کرو ورنہ۔
جی آپ کی مہربانی سر۔ میں ابھی ٹھیک کرتی ہوں۔ جاؤ دروازہ بند کرو، کوئی دیکھے گا تو تمہیں پکا سفارشی سمجھے گا۔ اتنی ذہین اور پر عزم لڑکی کی انہیں پہچان ہے ہی نہیں۔
فائزہ جانے لگی تو دو قدم اٹھانے کے بعد اسے لگا اس کا ریشمی دوپٹہ کھسک رہا ہے بوکھلاہٹ میں واپس پلٹی تو دوپٹے کو میز کی کانچ میں پھنسے پایا۔ چھڑانے کی کوشش میں دوپٹہ پھٹ رہا تھا۔ صاحب نے کہا کہ دوپٹہ بعد میں چھڑوانا جاؤ پہلے دروازہ بند کرو۔ خود بھی نوکری سے ہاتھ دھوؤ گی اور میرے لئے بھی مصیبت بنو گی۔ فائزہ جلدی سے دروازہ بند کر آئی مگر دوپٹہ نہیں چھوٹا۔ پھٹ گیا۔ غلطیوں بھری فائل وہیں کہیں پڑی تھی اور فائزہ کو ڈی جی صاحب تسلی دے رہے تھے کہ تم جادو گرنی ہو، یہ سب میں نے کسی بری نیت سے نہیں کیا۔ میں تو بس تم جیسی پر عزم لڑکی سے متاثر تھا۔ مگر تم فکر نہ کرو یہ کمرہ اہم میٹنگز کے لئے استعمال ہوتا ہے ساؤنڈ پروف ہے، تمہاری آوازیں باہر کسی نے نہیں سنی ہوں گی۔
آج سے تم میری مکمل ذمہ داری ہو۔ تمہاری میں دل سے قدر کرتا ہوں۔ تم ایک عزت دار گھر کی عزت دار لڑکی ہو۔ میں نے تم جیسی باکردار لڑکی آج تک نہیں دیکھی۔ تم نے اپنے کردار کی بہت حفاظت کرنا ہے۔ تمہاری نوکری جلد پکی کروں گا تاکہ تمہیں تمہاری محنت اور لگن کا جائز معاوضہ ملے۔ تب تک تمہیں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو بلا جھجھک مجھے کہنا۔ سر مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے آپ کہیں مجھے چھوڑ تو نہیں دیں گے ڈی جی صاحب فائزہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فکر نہ کرو میں نے کہاں جانا ہے میں تو یہی رہوں گا۔
میں Humanitarian ہوں۔ لوگوں کی مدد کرنا میرا مشن ہے۔ ورنہ اس تعلیمی قابلیت اور ناتجربہ کاری پر نوکری کہاں ملتی ہے۔ جلد ہی تم پکی سرکاری نوکر ہو جاؤ گی۔ فائزہ کے اندر بہت کچھ جو ٹوٹا تھا۔ اِن حسین خوابوں کی جھلک سے کچھ کچھ پھر جڑنے لگا۔
دو گھنٹے بعد فائزہ ڈی جی صاحب کے کمرے سے نکلی تو سامنے سمرا مسکرا رہی تھی۔ پھٹا دوپٹہ دیکھ کر سمرا نے بڑی بے اعتباری سے ڈی جی کے دروازے پر دستک دی۔ اتنی ہمت تو نہ تھی کہ کوئی سوال کرتی بس اسی ٹوٹے کانچ والے کونے کو دیکھتی رہی جہاں ابھی پرسوں اس کا دوپٹہ اٹکا تھا اور سوال کیا سر میری جگہ کہیں فائزہ کی نوکری تو پکی نہیں ہو جائے گی۔ صاحب نے آر پار ہوتی نظروں سے سمرا کو دیکھا اور مسکرا کر بولے نہیں سمرا تم ابھی بچی ہو۔ یہ تم بچوں کو جلدی بڑی ہوتی ہے ہر کام کی۔ کل آنا۔ آج میں تھکا ہوا ہوں۔ سمرا کو فائزہ سے جلن ہو رہی تھی سمرا کو رہ رہ کر پھٹا دوپٹہ یاد آ رہا تھا۔ اپنا بھی اور فائزہ کا بھی۔ فائزہ کی ترقی ہوتی ہے تو میری رہ جائے گی۔ اس کا ایک ہی حل تھا۔
اگلے روز ڈی جی صاحب نے ضروری معاملات سے فارغ ہوتے ہی سمرا کو بلا بھیجا۔ سمرا فوراً ہی حاضر ہوگئی۔ سر وہ میری جگہ کہیں فائزہ؟ سمرا تم کوئی اکیلی نہیں ہو جس کا مجھے خیال رکھنا ہے۔ اس دفتر میں کام کرنے والی ہر لڑکی میری ذمہ داری ہے میں نے سب کو ایک اعلیٰ مقام دینا ہے معاشرے میں۔ میں ایک عزت دار آدمی ہوں اور لڑکیوں کی عزت کرنا جانتا ہوں۔ تم غلط ہاتھوں میں چلی جاؤ گی اگر میں نے تمہیں سہارا نہ دیا تو۔ اس بات کا خیال ہے مجھے۔ دروازہ بند کر دو۔
ڈی جی صاحب آج پھر بہت تھکے ہوئے ہیں۔ نئی بھرتیاں، تبادلے، سرگوشیاں شور۔ میز پر رکھا شیشہ ابھی تک نہیں بدلا، نہ صاحب کی انگلیوں کی پھرتی کم ہوئی ہے جو اس کانچ میں دوپٹے پھنساتی ہے۔

