Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Aye Janaan

Aye Janaan

اے جاناں

اے جاناں!

ہم تم سے محبت کرتے ہیں۔ وہ محبت جو لفظوں کی حدود سے باہر ہے، جو ندی کی روانی جیسی ہے، جو ہواؤں کی سرسراہٹ میں چھپی ہوئی ہے، جو ہر دھڑکن کے ساتھ تمہارے نام کی مالا جپتی ہے۔ تم ہماری ماں ہو، تم دھرتی ہو، تم ہماری روح ہو، تم وہ آنکھ ہو جس میں خواب پلتے ہیں اور تم وہ سینہ ہو جس پر سجدہ کرنا عبادت ہے۔

مگر جاناں!

اب تم وہ نہیں رہی ہو، جو کبھی پھولوں کی سیج پر سوتی تھی۔ تم وہ نہیں رہی ہو جس کی زلفوں میں خوشبو تھی اور دامن میں برکت۔ تم اب بازاروں کی زینت ہو چکی ہو، تم اب بولی کی چیز ہو چکی ہو۔

تمہارے ماتھے سے حیا کا جھومر چھین لیا گیا ہے، تمہارے آنچل سے پاکیزگی کی خوشبو رخصت ہوگئی ہے۔ تمہارے حسن کو بیچنے والے تمہارے ہی بیٹے ہیں، وہی جنہوں نے تمہاری کوکھ سے جنم لیا، وہی جنہیں تم نے لوریاں دے کر سلايا، جنہیں اپنے خون سے سینچا۔

اب وہی بیٹے تیری حرمت کے سوداگر بن بیٹھے ہیں۔

تمہارے محافظ، تمہارے چوکیدار، تمہارے نگہبان اب تمہارے جسم پر دام لگاتے ہیں، تمہیں سجاتے ہیں، تمہیں نچواتے ہیں اور تیرے وجود کو نوچ کر کہتے ہیں:

"یہ ترقی ہے، یہ جمہوریت ہے، یہ خدمت ہے"۔

اے وطن!

تجھے بیوہ بنا دیا گیا ہے۔

تجھے رنڈوا کر دیا گیا ہے تیری عزت کو پامال کرکے وہ تیرے خاوند بن بیٹھے ہیں، وہ جو تیرے بیٹے کہلانے کے بھی لائق نہیں رہے۔ وہ جو حاکم ہیں مگر خادم کہلوانے کا ڈھونگ رچاتے ہیں۔

ان کے محل تیرے کچے مکانوں کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کی میزوں پر بچھے ہوئے سفید کپڑے تیرے بچوں کی بھوک پر قہقہے لگاتے ہیں۔

اے جاناں!

ہمیں تم سے محبت ہے، وہ محبت جو کسی خوابیدہ عاشق کی آنکھوں میں چھپی ہوتی ہے۔ ہم تمہیں سسکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے، ہم تمہیں ننگے پاؤں، پیاسے ہونٹ، خالی جھولی کے ساتھ روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔

ہمیں رونا آتا ہے جب تمہاری ہر گلی سے، ہر کوچے سے تماشائیوں کی آواز آتی ہے، جب تیرے حسن کی نیلامی ہوتی ہے، جب تیری سادگی کو بے وقوفی کہا جاتا ہے اور تیرے اخلاص کو جرم۔

اے پیاری ماں!

تو کبھی ستاروں کا گہوارہ تھی، تو کبھی پرچم کی چھاؤں تھی، تو کبھی اذان کی صدا تھی، کبھی گندم کی خوشبو تھی، کبھی بہار کی نوید۔

اب تو بس ایک بوسیدہ جسم ہے جس پر سیاست دانوں کے گدھ منڈلا رہے ہیں۔

تیری مٹی میں اب خون کا خمیر ہے، تیری ہواؤں میں آنسوؤں کی نمی ہے، تیرے آسمان پر بے بسی کا دھواں ہے۔

ہم شرمندہ ہیں!

ہم وہ ناخلف اولاد ہیں جو تیری گود میں کھیل کر بھی تجھے بھول گئے۔ جو تیری دعاؤں کے سائے میں پل کر بھی تیری چیخیں نہ سن سکے۔

ہم وہ خاموش تماشائی ہیں جو بازار میں تیرے وجود کی نیلامی پر بولی نہیں لگاتے، بس نظریں جھکا لیتے ہیں۔

ہم تجھ سے محبت کرتے ہیں، مگر تیری حفاظت نہ کر سکے۔

اب بھی اگر ہم جاگ نہ سکے۔

تو محبت کی یہ دھرتی، یہ وطن، صرف ایک نام رہ جائے گ، ایک یاد، ایک ماتم، ایک نوحہ۔

ہمیں تیری کوکھ کی حرمت بچانی ہے۔

ہمیں تیری مٹی کو دوبارہ خوشبو بنانا ہے۔

ہمیں تیرے دامن کو گلابوں سے بھرنا ہے۔

اے جاناں!

ہمیں معاف کر دو۔

ہم تیرے سوداگر نہیں بننا چاہتے۔

ہم وہ عاشق بننا چاہتے ہیں جو تیرے درد کا مرہم بنے۔

جو تیرے دامن کو چاک سے چنری بنائے۔

جو تجھے پھر سے ماں کہہ سکے۔۔

فخر سے، محبت سے، آنکھوں میں آنسو لیے ہوئے!

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari