Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zahra Javed
  4. Iqbal Ka Paigham Aaj Ke Musalmano Ke Naam

Iqbal Ka Paigham Aaj Ke Musalmano Ke Naam

اقبال کا پیغام آج کے مسلمان کے نام

علامہ اقبال، وہ نام جس سے میری تحریر کا سفر شروع ہوا۔ آج انہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے ایک زمانہ ہو چکا ہے، مگر اقبال اب بھی کہیں نہ کہیں موجود ہیں کبھی کتابوں کے صفحات میں، کبھی کسی ادیب کے ذہن میں اور جہاں وہ سب سے زیادہ ہونے چاہیے تھے، وہاں نہیں ہیں نوجوانوں کے دلوں میں۔

پاکستان، جو اقبال کے خواب کی تعبیر تھا، آج اُسی سرزمین پر اقبال کو محض "قومی شاعر" کے ایک مقبول لقب تک محدود کر دیا گیا ہے۔ لوگ ان کی شاعری گاتے ہیں، نظمیں پڑھتے ہیں، لیکن ان کی پکار، ان کی نصیحت اور وہ الفاظ جو دل سے نکلے اور امتِ مسلمہ کو بیدار کرنے کے لیے کہے گئے، وہ سنائی نہیں دیتے۔ ان کے پیغام کو کانوں سے دل تک رسائی حاصل نہیں ہو سکی۔

ہم نے اقبال کے کلام کو صرف اسکول کے نصاب یا محفل کی غزل بنا دیا ہے۔ مگر ان کے کلام کا اصل مطلب؟ ہم اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ تو اپنی زندگی کا اصل مقصد نہ صرف تلاش کر گئے بلکہ اسے پورا بھی کر گئے۔ مگر افسوس، آج کے نوجوان کا مقصد صرف پیسہ کمانا رہ گیا ہے۔ رزق کی تلاش اور اس کے لیے محنت ضروری ہے، مگر اسے اپنی زندگی کا مقصد بنا لینا غلط ہے۔

اقبال کا اپنے رب سے تعلق کچھ اور ہی تھا ایک روحانی رشتہ، جو انہیں راتوں کو جگاتا تھا۔ ان کی آنکھوں میں فکرِ آخرت تھی، مگر ہماری آنکھوں میں صرف خود غرض خواہشوں کا عکس ہے۔ ان کا مسلمانوں سے بھی ایک خاص اور بےلوث تعلق تھا ان کے درد کو اپنا سمجھ کر، ان کی غفلت کو مقصد بنا کر بیداری کی آوازیں ہر ایک کے کانوں تک پہنچائیں۔ لیکن یہ پکار صرف کانوں تک پہنچ کر ہی لوٹ گئی، دل تک رسائی حاصل نہ کر سکی۔ یہ آواز، یہ پکار، ایک سوچ نہ بن سکی۔

انہوں نے اپنی زندگی مسلمانوں کے لیے وقف کر دی۔ اپنی شاعری کا اصل موضوع نوجوانوں کو بنایا اور ان کے سوئے ہوئے ضمیروں کو جگانے کی جستجو کرتے رہے۔ جب تک اقبال زندہ رہے، نوجوان بیدار ہوتے رہے۔ مگر ان کی آنکھ بند ہونے کے ساتھ ہی آج مسلمانوں کے دلوں کی کھڑکیاں بھی بند ہوگئیں۔

لیکن آج؟

آج اقبال کا "شاہین" پھر سے سو گیا ہے۔ خواہشات کی چادر اوڑھ کر، غفلت کی نیند میں کھو گیا ہے۔

آج کا مسلمان صرف نام کا مسلمان رہ گیا ہے اسے اقبال کی ضرورت تو ہے، مگر وہ اقبال کو یاد نہیں کرتا۔ وہ اقبال کو صرف محفلوں کی رونق بنانا چاہتا ہے، مگر اپنی سوچ کا محور ان کے الفاظ میں چھپے پیغام کو نہیں بنانا چاہتا۔

اقبال آج بھی پکار رہے ہیں "اٹھو اے نوجوانو! اس خواہشات کی نیند سے بیدار ہو جاؤ، کامیابی تمہاری راہ تک رہی ہے! "

اب یہ آپ پر ہے۔۔

کیا آپ اقبال کو دل تک رسائی دیں گے؟

کیا اقبال کا پیغام آپ کی سوچ کا مرکز بنے گا؟

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan