Mere Roop
میرے روپ

میرے کئیں روپ ہیں۔ کچھ دن میں ناسٹالجیا کا شکار ہو کر ماضی کی یادوں میں رہتا ہوں اور یادداشتیں لکھتا رہتا ہوں۔ کچھ تو وہ ہیں جو فیس بک پر آ جاتی ہیں اور کچھ ذاتی نوعیت کی ایسی ہیں جو لیپ ٹاپ میں سیو رہ جاتی ہیں۔ اس خیال سے کہ وقت نے مہلت دی اور دل بھی مائل ہوا تو چند سال بعد اپنی خودنوشت میں شامل کر لوں گا۔ جو یاد آتا ہے وہ لکھ اس واسطے لیتا ہوں کہ وقت کے ساتھ یادداشت بھی متاثر ہو جاتی ہے، ابھی یاد ہے تو لکھ لوں۔
کچھ دن میں سماجیات اور سیاسیات پر خون جلانے لگتا ہوں۔ ان دنوں مجھے لگتا ہے کہ ہمارے سماج میں جو کرب ہے اس کو بیان کروں۔ اس ملک میں جو دیکھا ہے یا دیکھتا ہوں اس کو عام فہم الفاظ یا سادہ زبان میں قلمبند کروں۔ کبھی کبھی تحاریر تلخ ہو جاتی ہیں اور کبھی کبھی سماج کے مختلف طبقات کی جانب سے ردعمل میں بدتمیزی کا سامنا بھی رہتا ہے۔ چونکہ سماج لسانی، صوبائی اور مذہبی و سیاسی طبقات میں بٹا ہوا ہے اس واسطے یہاں لکھنے والوں کے لیے گنجائش بھی کم بچی ہے۔ عدم برداشت کا کلچر ہے۔
پھر کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جن دنوں میں خالص پیشہ وارانہ موڈ میں چلا جاتا ہوں۔ پروفیشنل ازم، نوکری، بزنس، ڈگری اور سکلز سے متعلقہ امور اور اپنی Struggle کو بتانے لگتا ہوں تاکہ جو لوگ ابھی گردش حالات کے سبب مایوس ہیں وہ ذرا حوصلہ رکھیں۔ کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں۔ وقت گزر جاتا ہے۔ وقت بدل جاتا ہے۔ وہ دن بھی نہیں رہتے اور سنہرے دن بھی غروب ہو جاتے ہیں۔
کچھ دن میرا طنزیہ فربیہ موڈ آن رہتا ہے۔ مزاح کے موڈ میں یا لائٹ موڈ میں رہتا ہوں۔ اکثر اوقات سوسائٹی کے سنجیدہ موضوعات پر بھی لائٹ موڈ تحاریر و کالمز لکھے تا کہ جنہوں نے کچھ حاصل کرنا ہے وہ تو سمجھ جائیں گے اور جن کو بین السطور چھوڑ صاف لکھے ہوئے سے بھی کچھ سبق نہیں ملتا وہ پڑھ کے ہنس کر گزر جائیں گے۔ اس ملک میں مہنگائی، بیروزگاری اور نامساعد معاشی حالات نے پہلے ہی ہماری جمالیاتی حس کا کچومر بنا کر مزاجوں کو بوجھل و چڑچڑا بنا رکھا ہے۔ ایسے معاشروں میں آپ یقین کیجیئے کہ لکھنے والے اسی سوچ کے زیر اثر لکھ رہے ہوتے ہیں کہ پل و دو پل ہلکا سا قہقہہ ہی سہی، چاہے اس قہقہے کا ہدف لکھنے والے کی اپنی ذات ہی بنے۔ وہ یہ سب جان کر ہی لکھ رہا ہوتا ہے کہ اپنی ذات سے کسی کو ہنسایا جا سکتا ہے تو جانے دو۔
ایک روپ سوشل ویلفئیر کا طاری ہو جاتا ہے۔ ان دنوں میں اسی دھن میں لگا رہتا ہوں کہ کسی طرح اپنی ہر ممکن کاوش سے کسی انسانی جان، انسانی بستی یا خاندان کی بحالی یا فلاح کے لیے جو کر سکتا ہوں کر جاؤں۔ چاہے اپنے وسائل سے باہر نکل کر مجھے اپنے کولیگز، یاروں اور دوستوں سے مدد طلب کرنا پڑے۔ جس سماج نے مجھے چھوٹی موٹی پہچان دی ہے اس کا مجھ پر حق ہے اور مجھے وہ ہر ممکن حیثیت میں لوٹا کر جانا ہے۔ میں نے بچپن، لڑکپن اور جوانی کی غربت کو سہا ہے۔ فاقوں کا مطلب اچھے سے جانتا ہوں۔ یہ بھی معلوم ہے کہ رات بستر پر روتے روتے کیسے گیلی آنکھیں بھی سو جاتیں ہیں۔ والدین کو مالی تنگی کے ہاتھوں علاج کی اچھی سہولیات نہ ملنے کے سبب کھویا ہے۔
کچھ دن میں فوٹوگرافر کا روپ دھارن کر لیتا ہوں۔ تصاویر اور ان کے پس پردہ یا ان سے منسلک داستان سامنے لاتا ہوں۔ یا اس شعبے میں پیش آنے والے حالات و واقعات کا ذکر یا اچیومنٹس کی باتیں۔ فوٹوگرافی میرا جنون کی حد تک شوق تھا اور ہے۔ میری پہلی پہچان یہی بنی تھی۔ لکھنا تو بعد میں شروع کیا تھا۔
کچھ دن میں ٹریولنگ موڈ میں چلا جاتا ہوں۔ سفر میں رہتا ہوں اور اوپر بیان کردہ اپنی شخصیت کے سارے روپ اتار پھینکتا ہوں۔ ذہن خالی کر دیتا ہوں۔ ٹریولنگ میں مجھے خوشی ملتی ہے اور پھر وہ سب سوچیں بھی ذہن سے نکل جاتیں ہیں جن کے سبب میرا لہو جلتا تھا۔ سفر میں دل بہلا رہتا ہے۔ نئے زمان و مکان میں شب و روز گزرتے ہیں۔ نئے لوگ ملتے ہیں۔ سفرنامہ نگاری الگ فن ہے۔ وہ میری شخصیت کا الگ روپ ہے۔ میں صرف سفر کی بات کر رہا ہوں۔
اور پھر روپ بدل کر سفرنامہ نگار ہو جاتا ہوں۔ ان دنوں مجھے لگتا ہے میں پھر سے مسلسل سفر میں ہوں۔ ذہن یادوں سے بھرا رہتا ہے۔ مل کر بچھڑے لوگ یاد آتے رہتے ہیں۔ بیتے ہوئے مناظر پھر سے آنکھوں کے سامنے رنگ بدلنے لگتے ہیں۔ گھر بیٹھے بھی مجھے لگتا ہے میں پھر سے وہاں ہوں جہاں کبھی تھا۔ خدا نے مجھے بہت مضبوط Visual Memory دی ہے۔ یہ ایک طرح کی نعمت بھی ہے اور اذیت بھی۔ آپ بہت کچھ بھولنا چاہتے ہیں، بہت سی باتیں، بہت سے اذیت ناک لمحات، بہت سے ذاتی المئیے، مگر آپ بھول نہیں سکتے۔ وہ جب تازہ ہو جائیں تو ایک ایک تفصیل دماغ کے پردے پر اجاگر ہونے لگتی ہے۔
یہ میرے بہت سے روپ اس لیے ہیں کہ میں نے زندگی کو برتا ہے۔ گزارا نہیں۔ نامساعد حالات میں بھی بھرپور زندگی بسر کی ہے اور کرتا ہوں۔ میں سست الوجود نہیں رہا۔ جیب خالی تھی تو بھی متحرک تھا، کچھ نہ کچھ کرتا رہتا تھا۔ یہ زمین ہر طرح کی سستی کے لیے قبرستان ہے۔ جو درخت آب و ہوا ناموافق ہونے کے باوجود بڑھ نہیں سکتا وہ سوکھ جاتا ہے اور جو جاندار چل دوڑ نہیں سکتا وہ شکار ہو جاتا ہے۔ میرے اور میرے جیسے بہت سے لوگوں کی اتنی سی کہانی ہے کہ ہم سب نے حالات کے ڈر سے دبکنے، رکاوٹوں کے خوف سے رکنے اور غربت کے پہاڑ سے خوفزدہ ہونے کی بجائے ان سب کو پار کر سفر جاری رکھا ہے۔
آنے والے دو ہفتوں میں مسلسل ٹریول موڈ میں ہوں گا۔ کوشش کروں گا سفر میں آپ کو جاپان سے روشناس کرا سکوں۔ میں خود سفر پر نکلتا ہوں تو شاید اس لیئے کہ انسانوں کا ایک گروہ اور مخصوص معاشرہ (میرے ارد گرد کا) اپنے زورِ حرکت سے میرے قدم اکھاڑ کر مجھے ایک بے اختیار وجود میں بدل دیتا ہے لیکن میں تا دیر ان سے جدا بھی نہیں رہ سکتا۔ کچھ دن بعد پھر گھر کی جانب چلا آتا ہوں۔
واپسی ہوتی ہے تو ایک مختصر مدت پچھلے سفر کی یادوں میں غرق ہو کر گزرتی ہے مگر بلآخر مجھے سانس لینے کے واپس اپنے ماحول میں، سطح آب پر آنا پڑتا ہے اور تب میری آنکھیں چندھیائی جاتی ہیں، میں دیکھ نہیں سکتا اور ایک بار پھر ٹٹولتا ہوا نئی روشنیوں کی تلاش میں سفر پر نکل کھڑا ہوتا ہوں یوں نہ تو میں مچھلی کی طرح تا دیر پانی سے باہر جی سکتا ہوں نہ ہی سفر کا سمندر مجھے ہمیشہ کے لیئے قبولتا ہے۔
میرا ماننا ہے اگر آپ اپنے ماحول سے نکل سکنے پر قدرت رکھتے ہیں تو ضرور نکلیں۔ دنیا دیکھیں۔ مختلف سماج دیکھیں۔ مختلف مذاہب، کھانے، رسم و رواج سے شناسائی حاصل کریں۔ آپ کو احساس ہوگا کہ دنیا بہت وسیع ہے۔ اتنی نہیں جتنا اپنے گھر کی چھت سے نظر آتی ہے۔ میرے جاننے والے دوستوں اور فالورز میں سے اکثر احباب کو لگتا ہے میں بہت خوش قسمت ہوں۔ اپنی زندگی اپنے ڈھنگ سے بسر کر رہا ہوں۔ مگر کسی نے میرے جوتے پہن کر سفر کیا ہے نہ کوئی اس مشقت پر نظر دوڑاتا ہے جس میں پگھلتے عمر کی دو دہائیاں گزار آیا۔
چونکہ مزاجاً introvert ہوں اس واسطے مجھے میل جول اور ملاقاتیں پسند نہیں۔ اپنی دنیا میں مگن انسان ہوں۔ سفر کرتا ہی اپنے لیے ہوں۔ جتنا بھی سوشل ہوں وہ اس سوشل میڈیا کی کھڑکی سے ہی سوشل ہوں۔ وہ بھی اپنی بات رکھنے، سماجی بھڑاس نکالنے، یا کچھ دوستوں کے ساتھ انگیج رہنے کے واسطے ہے۔
کوئی آپ کے تجربات سے سیکھتا ہے تو ویلکم۔ کوئی نہیں سیکھتا تو بھی خوش رہے۔ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہئیے۔ وقت کے ساتھ ہر کوئی اپنے علم و شعور و تجربات کے مطابق سمجھ جاتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ انسان نہ مکمل بُرا ہوتا ہے نہ پرفیکٹ اچھا۔ کوئی بھی کامل نہیں ہے۔ ہر انسان خوبیوں و خامیوں کا مجموعہ ہے۔ اگر کسی کے ہاں وہ بُرا ہے تو بیسیوں کے ہاں وہ اچھا ہے۔ ہر آدمی میں کئیں پہلو پنہاں ہیں۔ بدقسمتی سے انسان دوسرے انسان کے کسی ایک پہلو کو دیکھ کر اس کے بارے فیصلہ صادر کر دیتے ہیں اور اُلجھنا شروع ہو جاتے ہیں اور یہ رویہ ہمارے ہاں ہر طبقے میں بدرجہ اُتم پایا جاتا ہے۔
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
سفر میری لائف لائن رہی ہے۔ اگر میں نہ کرتا تو شاید کہیں ماضی میں گردشِ حالات کے سبب بکھر کر ختم ہوگیا ہوتا۔ مرنا تو سب نے ہے۔ مر وہ بھی جاتے ہیں جو ساری عمر پیسہ کمانے کو مشینی زندگی بسر کرتے ہوئے اپنے شہر، گاؤں یا ملک سے باہر نہیں نکلتے اور پائی پائی جوڑ کر چل بستے ہیں اور مر وہ بھی جاتے ہیں جو دنیا کو دیکھنے کی غرض سے سفر کرتے ہیں مگر مجھے ایمان کی حد تک یقین ہے کہ دوسری قسم کے لوگوں پر جب موت اُترتی ہے تو وہ آخری لمحات میں دنیا کی حسین وادیوں، بستیوں، جھیلوں کے کنارے خود کو زندہ پاتے ہیں اور پھر روح جسم کی قید سے آزاد ہو جاتی ہے۔ میں چاہتا ہوں میرا شمار دوسری قسم کے لوگوں میں ہو۔
اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے زندگی اچھی یا بری کیسے گزاری ہے۔ اس سے فرق پڑتا ہے کہ اپنے کام، نام اور عمل سے آپ نے آٹھ ارب انسانوں کی اس دنیا میں کہاں اور کیا فُٹ پرنٹس چھوڑے ہیں۔

