Mohabbat Aur Jang Mein Sab Kuch Jaiz Nahi
محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز نہیں

اگر واقعی محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے، تو پھر ہمیں دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے فوجیوں پر افسوس نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں ان درندہ صفت عاشقوں کے خلاف آواز نہیں اٹھانی چاہیے جو مسترد کیے جانے پر کسی لڑکی کے چہرے پر تیزاب انڈیل دیتے ہیں۔ ہمیں ان پولیس اہلکاروں کی مذمت نہیں کرنی چاہیے جو جرم کا خاتمہ کرنے کے نام پر ہر اصول اور قانون کو روند کر جعلی مقابلے کرتے ہیں۔ اگر سب کچھ جائز ہے، تو پھر قصائی کے روپ میں چھپے وہ ڈاکٹر بھی درست ہیں جو ایک مریض کے جسم کو تجربہ گاہ بنا کر نوٹ چھاپتے ہیں۔ مگر کیا واقعی ہم ان سب کو درست کہہ سکتے ہیں؟ اگر نہیں، تو پھر یہ جملہ، یہ فلسفہ، "محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے" آخر کہاں سے آیا؟
یہ وہی فلسفہ ہے جس نے دنیا میں ظلم و جبر کے لیے ایک خوبصورت بہانہ فراہم کر دیا۔ کسی بھی غیر انسانی، غیر اخلاقی، غیر قانونی حرکت کو جائز ثابت کرنے کے لیے یہی ایک جملہ کافی ہوتا ہے۔ قتل؟ محبت میں جائز۔ دھوکہ؟ جنگ میں لازم۔ وحشت؟ عشق میں ضروری۔ ظلم؟ میدانِ جنگ کا تقاضا۔ بس اتنی سی بات ہے اور ہم صدیوں سے اس دھوکے کو اپنی سوچ کا حصہ بنائے بیٹھے ہیں۔
آئیے ذرا اس اصول کو عملی طور پر دیکھتے ہیں۔ اگر جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا، تو وہ سپاہی جو دشمن کے قبضے میں آتے ہیں، ان کے گلے کاٹنا بھی جائز ہونا چاہیے؟ وہ فوجی جو ملک کی حفاظت کرتے ہوئے دشمن کے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں، ان پر وحشیانہ تشدد کرنا، ان کی لاشوں کی بے حرمتی کرنا بھی جائز ہونا چاہیے؟ مگر ہم ان مناظر کو دیکھ کر غصے سے بھر جاتے ہیں، وحشی دشمن کو کوستے ہیں، ان کے ظلم کی مذمت کرتے ہیں۔ اگر سب کچھ جائز ہوتا، تو ہم اس پر اعتراض کیوں کرتے؟
پھر محبت کو دیکھیے۔ اگر واقعی محبت میں سب کچھ جائز ہوتا، تو پھر وہ عاشق جو اپنی محبوبہ کے انکار پر اسے قتل کر دیتا ہے، وہ بھی ٹھیک ہے؟ وہ جو لڑکی کی مرضی کے خلاف اسے باندھ کر لے جانا چاہتا ہے، وہ بھی صحیح ہے؟ وہ جو محبت کے نام پر بلیک میلنگ، تشدد، بے عزتی اور بدلہ لیتے ہیں، وہ بھی درست ہیں؟ اگر محبت میں سب کچھ جائز ہے، تو پھر یہ سب قابلِ قبول کیوں نہیں؟ ہم کیوں عدالتوں میں جا کر انصاف مانگتے ہیں؟ کیوں مظاہرے کرتے ہیں؟ کیوں پولیس کو بلاتے ہیں؟ کیوں؟
یہ درحقیقت ایک ایسا جھوٹ ہے جو صدیوں سے بول کر سچ بنا دیا گیا ہے۔ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز نہیں، بلکہ سب کچھ محدود ہے، اصولوں میں بندھا ہوا ہے۔ اگر جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا، تو دنیا میں جنگی قوانین، معاہدے، جنگی جرائم کے مقدمات، اقوامِ متحدہ کے چارٹر سب فضول ہوتے۔ اگر محبت میں سب کچھ جائز ہوتا، تو قانون، اخلاقیات، انسانی قدریں سب بے معنی ہوتے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا ان اصولوں کے بغیر نہیں چل سکتی۔
ہم جس فلسفے پر یقین کر بیٹھے ہیں، وہ ظلم اور بربریت کا دروازہ کھولتا ہے۔ اگر ہم مان لیں کہ "سب کچھ جائز ہے"، تو پھر طاقتور ہمیشہ صحیح ہوگا اور کمزور ہمیشہ غلط۔ جس کے پاس بندوق ہوگی، وہ سچ بولے گا اور جس کے پاس محبت کے نام پر ظلم کرنے کی ہمت ہوگی، وہ معصوم ٹھہرے گا۔ ہم جس سماج میں جی رہے ہیں، وہاں یہی فلسفہ کمزور کو مزید کمزور اور ظالم کو مزید مضبوط کر رہا ہے۔
یہی سوچ پولیس مقابلوں کو بھی جائز قرار دیتی ہے۔ جب کوئی پولیس اہلکار اپنی وردی کے نشے میں قانون کو ہاتھ میں لے کر جعلی مقابلے کرتا ہے، تو اسے بہادری کہا جاتا ہے۔ وہ جسے چاہے مار دے، جسے چاہے زندہ چھوڑ دے اور بعد میں بس ایک رپورٹ لکھ دی جاتی ہے کہ "مقابلے میں ہلاک"۔ مگر جب یہی رویہ کسی عام قاتل میں نظر آتا ہے، تو ہم اسے درندہ کہتے ہیں۔ اصول ایک، پیمانے دو۔ اگر جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا، تو پھر جنگی مجرموں کے ٹرائل کیوں ہوتے ہیں؟ اگر محبت میں سب کچھ جائز ہوتا، تو پھر محبت کے نام پر قتل کو غیرت کے نام پر قتل کیوں کہا جاتا ہے؟
ہم نے ان جملوں کو رومانوی اور بہادرانہ بنا کر پیش کیا ہے، مگر حقیقت میں یہ ظلم اور بربریت کی حمایت میں ایک مکروہ ہتھیار بن چکا ہے۔ کیا محبت میں وفاداری جائز نہیں؟ کیا جنگ میں انسانیت کی گنجائش نہیں؟ کیا کسی بھی رشتے، کسی بھی میدان میں اصولوں کی ضرورت نہیں؟ اگر سب کچھ جائز ہونے لگا، تو جنگل کا قانون حاوی ہو جائے گا، جہاں صرف طاقتور کا سچ چلے گا اور کمزور کو دبایا جائے گا۔
یہ فلسفہ وہی سوچ پیدا کرتا ہے جو انسان کو دھوکے، ظلم اور بربریت کی طرف لے جاتی ہے۔ جو عاشق اپنی محبوبہ کے لیے دنیا جیتنے کے خواب دیکھتا ہے، وہی جب مسترد ہو جاتا ہے، تو اس پر تیزاب پھینک دیتا ہے۔ جو فوجی دشمن کے خلاف جنگ لڑتا ہے، وہی اگر اصولوں کے بغیر چلے، تو عام شہریوں کو نشانہ بناتا ہے۔ جو پولیس والے انصاف کے رکھوالے ہوتے ہیں، وہی جب "سب کچھ جائز" سمجھ لیتے ہیں، تو عدالت کے بجائے گولی چلانے کو انصاف سمجھتے ہیں۔
یہ وہ جملہ ہے جس نے ظالم کو دلیل فراہم کی، قاتل کو جواز دیا اور انتہا پسند کو دلیل دی کہ وہ جو بھی کرے، جائز ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ محبت ہو یا جنگ، دونوں کے اپنے اصول ہوتے ہیں، اپنی حدیں ہوتی ہیں اور جو ان حدوں کو توڑ دیتا ہے، وہ عاشق نہیں، وہ سپاہی نہیں، وہ محافظ نہیں، بلکہ ایک مجرم ہوتا ہے۔
لہٰذا، اس جھوٹے فلسفے کو ترک کیجیے۔ محبت میں سب کچھ جائز نہیں، بلکہ صرف وہی جائز ہے جو محبت کے اصولوں کے مطابق ہو، یعنی عزت، قربانی، وفاداری اور خلوص۔ جنگ میں سب کچھ جائز نہیں، بلکہ وہی جائز ہے جو جنگی اصولوں کے مطابق ہو، یعنی دشمن سے لڑنا، نہتے شہریوں پر حملہ نہ کرنا، قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک نہ کرنا۔ اگر ہم نے اس حقیقت کو تسلیم نہ کیا، تو ہم ہمیشہ ظالموں کے ہاتھوں اپنی بربادی کا تماشا دیکھتے رہیں گے۔

