Zindagi, Barabri Aur Islam Mein Zaat Paat Ka Inkar
زندگی، برابری اور اسلام میں ذات پات کا انکار

دنیا کے مختلف معاشروں میں برابری اور مساوات کے تصورات کو ہمیشہ ایک چیلنج کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سماج ہمیشہ طبقات میں بٹا رہا ہے، کہیں رنگ و نسل کی بنیاد پر تفریق کی گئی، کہیں زبان اور علاقے کی بنیاد پر اور کہیں ذات پات اور حسب و نسب کو بنیاد بنا کر انسانوں کو اونچ نیچ میں تقسیم کیا گیا۔
ہندوستان کی ذات پات کا نظام ہو، مغربی سامراجیت ہو، یا عربوں کا قبائلی فخر، ہر دور میں طاقتور طبقے نے کمزوروں کو دبانے کے لیے مصنوعی برتری کے اصول وضع کیے۔ لیکن جب اسلام دنیا میں آیا تو اس نے ان تمام جاہلانہ تصورات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور واضح الفاظ میں اعلان کر دیا کہ تمام انسان برابر ہیں اور کسی کو کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، سوائے تقویٰ اور نیک اعمال کے۔
یہی وہ بنیادی اصول تھا جس نے اسلامی معاشرتی نظام کو منفرد اور عظیم بنایا۔ اسلام نے زندگی کو ایک نعمت قرار دیا اور یہ سکھایا کہ ہر انسان اللہ کی تخلیق ہے، اس کا مقصد محض کسی مخصوص قبیلے، نسل یا برادری کی خدمت نہیں بلکہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں انصاف اور مساوات کا بول بالا ہو۔
اسلامی تعلیمات میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا کہ اللہ کے ہاں عزت و احترام کا واحد معیار تقویٰ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقُنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلُنَاكُمُ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكُرَمَكُمُ عِندَ اللَّهِ أَتُقَاكُمُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ" (الحجرات: 13)
(اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ بیشک اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔)
یہ آیت اسلامی مساوات کے بنیادی اصول کی نمائندگی کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ انسانی تقسیم کا مقصد برتری یا کمتر ہونے کا پیمانہ نہیں، بلکہ محض پہچان کے لیے ہے۔ یعنی قبیلے، نسلیں، زبانیں اور علاقے صرف انسانوں کی شناخت کے ذرائع ہیں، ان کی بنیاد پر کسی کو حق نہیں کہ وہ خود کو دوسرے سے برتر سمجھے۔
یہ اصول اس وقت مزید نمایاں ہو جاتا ہے جب ہم نبی کریم ﷺ کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں۔ مکہ کا معاشرہ، جہاں قریش کو دیگر قبائل پر برتری حاصل تھی، غلاموں اور کمزوروں کو حقیر جانا جاتا تھا۔ لیکن جب اسلام کا پیغام پھیلا تو نبی کریم ﷺ نے ان تمام غیر اسلامی نظریات کو ختم کر دیا اور اعلان فرمایا: "کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت نہیں، سوائے تقویٰ کے"۔
یہ ایک ایسا انقلاب تھا جس نے پوری دنیا کے سماجی نظام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ جہاں دیگر مذاہب میں ذات پات اور نسل پرستی کو بڑھاوا دیا گیا تھا، وہاں اسلام نے مساوات اور برابری کو بنیادی اصول قرار دیا۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں جو حقیقی انسانی برابری کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ حضرت بلال حبشیؓ، جو ایک غلام تھے، انہیں اسلام نے عزت دی اور انہیں نبی کریم ﷺ کے سب سے قریبی ساتھیوں میں شامل کر دیا۔ وہی بلالؓ جو کبھی غلام تھے، مدینہ میں سب سے بلند مقام پر فائز ہوئے اور نبی کریم ﷺ نے انہیں مسجد نبوی کا مؤذن مقرر کیا۔
اسی طرح حضرت سلمان فارسیؓ، جو ایک غیر عرب تھے، انہیں اسلام میں بلند مقام حاصل ہوا اور نبی کریم ﷺ نے انہیں "سلمان منا اہل البیت" (سلمان ہمارے اہلِ بیت میں سے ہیں) کا لقب دیا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اسلام میں کسی انسان کی قدر و قیمت اس کے خاندان یا نسل سے نہیں، بلکہ اس کی نیکی، تقویٰ اور اعمال سے ہوتی ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ کا ایک مشہور واقعہ اسلامی مساوات کی بہترین مثال ہے۔ ایک دفعہ ایک عام شخص نے خلیفہ وقت سے سوال کیا کہ انہیں جو چادر ملی ہے وہ عام چادر سے بڑی کیوں ہے؟ حضرت عمرؓ نے فوراً جواب دیا کہ ان کے بیٹے نے اپنی چادر دے کر ان کی چادر کو مکمل کیا تھا۔ یہ وہ اعلیٰ ترین مثال ہے جو اسلامی حکومت کے اصولوں کو بیان کرتی ہے کہ یہاں کسی حکمران کو عوام سے برتر نہیں سمجھا جاتا۔
آج کے معاشرے میں اگر ہم اپنی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے اسلام کے ان اصولوں کو نظر انداز کر دیا ہے۔ ذات پات، برادری اور فرقہ واریت کا زہر ہمارے اندر سرایت کر چکا ہے۔ ہم اپنی برتری کا معیار ذات اور قبیلہ بنا چکے ہیں۔ شادی بیاہ میں ذات برادری کو ترجیح دی جاتی ہے، ملازمتوں میں سفارش اور تعلقات کا سہارا لیا جاتا ہے اور غریب طبقے کو کمتر سمجھا جاتا ہے۔ ہم نے وہی غلطیاں دہرانا شروع کر دی ہیں جو اسلام سے پہلے جاہلی معاشروں میں عام تھیں۔
اگر ہم ایک مثالی اسلامی معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ہمیں قرآن و سنت کے اصولوں کو اپنانا ہوگا اور یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ برتری کا معیار رنگ، نسل یا قبیلہ نہیں بلکہ کردار، تقویٰ اور نیک اعمال ہیں۔ ہمیں تعلیم و آگاہی کے ذریعے لوگوں کو یہ شعور دینا ہوگا کہ ذات پات اور برادری کے جاہلانہ تصورات اسلامی اصولوں کے خلاف ہیں۔
اسلامی مساوات کے نفاذ کے لیے ہمیں درج ذیل اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے:
تعلیم و آگاہی: لوگوں کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ انسانیت کی بنیاد پر تمام لوگ برابر ہیں اور اللہ کے ہاں عزت کا معیار صرف نیکی اور پرہیزگاری ہے۔
سماجی انصاف: ہر فرد کو مساوی مواقع دیے جائیں، چاہے وہ کسی بھی قبیلے، علاقے، یا طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔
عملی اقدامات: شادی بیاہ، ملازمت اور دیگر معاملات میں ذات پات کی بجائے اسلامی تعلیمات کو اپنایا جائے۔
قانونی اصلاحات: حکومتی سطح پر ایسے قوانین بنائے جائیں جو نسل پرستی اور ذات پات کی بنیاد پر تفریق کو ختم کریں۔
اگر ہم نے اسلام کے ان اصولوں کو اپنی زندگیوں میں نافذ کر لیا تو ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں سب برابر ہوں اور کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہ ہو۔ یہی وہ اسلامی نظام ہے جو ہمیں دنیا اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔ ہمیں اپنے اعمال اور رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی تاکہ ہم حقیقی معنوں میں اسلامی مساوات کو اپنی زندگیوں میں نافذ کر سکیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ایک بہترین اور منصفانہ معاشرہ فراہم کر سکتا ہے۔