Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Zeashan Butt
  4. Saalana Imtehanat

Saalana Imtehanat

سالانہ امتحانات

کچھ ماہ کچھ مخصوص سرگرمیوں کے لیے مختص ہوتے ہیں۔ پہلے مارچ کا مہینہ آتے ہی اسکول سے جڑے بچوں کے پہلے سالانہ امتحانات اور پھر ان کے نتائج کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن وطن عزیز کے ہر شعبے کی طرح تعلیم کا شعبہ بھی غیر یقینی کا شکار ہے۔ حکومتی عدم دلچسپی کے باعث جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی بات ہے۔ پرائیوٹ اداروں میں سالانہ امتحانات فروری میں ہو رہے ہیں۔

کیونکہ آگے رمضان کی آمد ہے اور اس حقیقت سے میرے قارئین بخوبی واقف ہیں رمضان میں ہم روزہ رکھ کر خالق کائنات پر احسان عظیم فرماتے ہیں اور دوسرا کوئی کام نہیں کرتے اس لیے بھی امتحانات پہلے لیے جا رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں محترم والدین اور اساتذہ کرام سے کچھ گزارشات۔ علم اللہ خالق و مالک کا فضل ہے جتنا ملا ہے اتنا ہی کم ہے۔ برائے کرم امتحانات کے نتائج کو اتنا بھی سنجیدہ نہ لیں کہ اسے جینے مرنے اور عزت اور بے عزتی کا مسئلہ نہ بنا لیں اور پھر اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی اجیرن بنا دیں۔

ایسے بہت سے والدین ہیں خصوصاً والد جو پورا سال بچے کی تعلیم کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے سالانہ امتحانات میں ان کو بھی بچے پہلی پوزیشن پر چاہیئں۔ ہر والدہ کو اپنا بچہ انعام لیتا نظر آنا چاہیے۔ میرے بھولے والدین تعلیمی اداروں کے دھوکے سے نکلیں اور پچھلے پندرہ سال کے تجربے کی بنیاد پر یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ 90 فیصد والدین کو نتائج کا جائزہ لینا ہی نہیں آتا ہے۔ پاس فیل کے چکر سے ہم نکل ہی نہیں پاتے۔

ایک اہم سوال والدین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں کہ بہت آسانی سے بغیر سوچے سمجھے ہم اپنے مستقبل کے معماروں کو نالائق جیسا سخت لقب دے دیتے ہیں۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر ایک پانچویں جماعت کے بچے نے سائنس میں 90/100 نمبر لیے ہیں اور اب ریاضی میں سے 33/100 نمبر لینے سے وہ نالائق کیسے ہوگیا۔ یا چھٹی جماعت تک پوزیشن لینے والا بچہ آٹھویں جماعت میں فیل ہو کر نالائق کا تمغہ کیسے حاصل کر لیا۔

اساتذہ سے ایک سوال کی جسارت کرتا ہوں۔ آپ لوگ اسکول سے بچے کو نالائق کہہ کر نکال دیتے ہیں آخر وہی بچہ ایک اچھا قاری، حافظ یا پھر ایک بہترین درزی یا مکینک کیسے بن جاتا ہے اگر وہ نالائق ہو تو زندگی کے ہر شعبے میں ہو نہ؟ اس کے علاؤہ جو بچے آج کل 1092/1100 لیتے ہیں۔ انہوں نے کونسا سائنس دان بن کر ملک کے لیے جھنڈے گاڑ دیے ہیں۔ ہمارا امتحانی نظام صرف یاداشت کی بنیاد پر ہے تخلیقی صلاحیت کا جائزہ لیا ہی نہیں جاتا گزارشات برائے اساتذہ۔

آپ نے جو شعبہ ارادی، غیر ارادی طور پر منتخب کر لیا ہے وہ پیغمبرانہ شعبہ ہے۔ حضور آل علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنا تعارف بھی بطور مدرس کروایا۔ آپ کا فرمان ہے کہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ ہمیں یہ چاہیے کہ آپ ﷺ کی زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کرنے چاہیے۔ جیسے آپ ﷺ نے عرب کے بدوؤں کو دنیا کی سب سے مہذب قوم بنا دیا۔ ہمارے شاگرد بھی ہمارے لئے صدقہ جاریہ ہوں۔

ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھیں۔

بچے کی غلطیوں کو معاف کریں تاکہ اس کو عملی طور پر معاف کرنے کی تربیت مل سکے۔

ہمیشہ وہ مضمون منتخب کیجیے جس میں مہارت ہو مسلسل اپنی عملی اور پیشہ ورانہ قابلیت کو بڑھانے کی کوشش کیجئے۔

یاد رکھیں جو بچہ آج آپ کے پاس ہے وہ لاعلم ہے لیکن کل وہ لاعلم نہیں رہے گا اور تب آپ کو اس کا سامنا بھی کرنا ہوگا۔

ہمارے استاد کہا کرتے تھے کہ شاگرد وہ نہیں ہوتا جسے استاد کہے کہ یہ میرا شاگرد ہے، شاگرد وہ ہوتا ہے جو خود اپنا تعارف کرواے کہ میں فلاں استاد کا شاگرد ہوں۔

ایک اور بات بھی تجربے کی روشنی میں موجود اساتذہ کی خدمت میں رکھتا چلوں کہ ایک مرتبہ کوئی شاگرد کسی استاد سے متاثر ہو جائے پھر لاکھ درجہ بہتر قابلیت و استعداد والا استاد بھی اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔

گزارشات برائے والدین۔

سالانہ امتحانات کے بعد نتیجے والے دن جانے والے جذبات کو سارا سال جگائے رکھیں۔

اپنے بچے کی تعلیمی کمی کو جانچنے کی کوشش کریں نجی تعلیمی اداروں کے جھانسوں جیسے میڈل سرٹیفیکیٹ، گفٹ کے چکر میں نہ آئے۔

نمبر، پوزیشن اور گفٹ، سرٹیفیکیٹ سے زیادہ اساتذہ سے یہ جاننے کی کوشش کیجئے کہ کیا آپ کا بچہ جماعت میں چست رہتا ہے، کیا اس کے اندر سوال کرنے کی صلاحیت ہے، مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے؟

بچے کو والدین سے جو سب سے زیادہ بڑا تحفہ چاہیے ہوتا ہے وہ ہے حوصلہ افزائی۔ اس لیے اپنے بچے کی حوصلہ افزائی کیجے، خصوصاً دوسروں کے سامنے، جن مضامین میں اچھی کارکردگی دیکھائی ہے ان کا تذکرہ بار بار کیجے، اس سے بچے میں اپنی کمی کو سننے کا حوصلہ پیدا ہوگا۔ اور پھر بہتری آئے گی۔

اگر بچہ آج فرسٹ نہیں آیا تو کوئی بات نہیں اگلے سال آ جائے گا۔

بچے کی وقتی ناکامی کو دوسروں، خصوصی رشتہ داروں میں تذکرہ کر کے اسے احساس کمتری کا شکار نہ بنائیں۔

سب سے اہم بات ہے ہر بچے نے ہی ڈاکٹر، انجینر نہیں بننا ہوتا ان مستقبل کے معماروں میں بہت سے کھلاڑی، صحافی، وکیل، فن کار، مذہبی رہنما ہوتے ہیں۔

اپنے بچے کی بات کو سمجھیں۔ اس کو سنیں اور اس کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

بچے جو ہوتے ہیں وہ برف کے پانی میں چینی کھولنے کے جیسے ہیں۔ وقت تو لگے گا۔ تھوڑا نہیں مکمل سوچیں۔

Check Also

Final Call

By Hussnain Nisar