Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Wasif Akram
  4. Safar e Hajj Bazariya Behri Jahaz

Safar e Hajj Bazariya Behri Jahaz

سفرِ حج بزریعہ بحری جہاز

جہاز "سفینہ حجاج" اور "سفینہ عرب" حاجیوں کو کراچی کی بندرگاہ سے سعودی عرب کے پورٹ جدہ لے جاتے اور لاتے تھے۔ 1974 میں کرایہ Rs. 6000 تھا لیکن سفر سات دن کا ہوتا تھا۔ 70 ہی کی دہائی میں غالباً "سمندری سفر" کو قومی ملکیت میں لیا گیا۔ اس طرح پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن وجود میں آیا۔

"ایم وی شمس" اس کمپنی کا آخری جہاز تھا جس کے ذریعے 1994 میں حاجیوں کو جدہ سے واپس کراچی پورٹ لایا گیا اور پھر "شمس" نے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کا رخ کیا جہاں سے کوئی بھی جہاز واپس "زندہ سلامت" نہیں آتا! اس طرح پاکستانیوں کے لیے سستا اور دلکش سمندری سفر کا باب بند کردیا گیا۔۔ شاید ہمیشہ کے لیے نہیں! اگر کہا جائے کہ 100 سال پہلے کراچی پورٹ ایشیا کی مصروف ترین بین الاقوامی بندرگاہ تھی تو آپ یقین کریں گے؟

جناب! یقین کرلینے کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ دستاویزی حقائق ریکارڈز میں محفوظ ہیں۔ مشہور اور اہم اسٹیمرز جو کراچی سی پورٹ سے یورپ۔ امریکہ اور آسٹریلیا آتی جاتی تھیں ان کی کمپنیوں کے نام یہ تھے: 1) دی پی اینڈ او اینڈ بی آئی۔ 2) دی برٹش انڈیا اسٹیم نیویگیشن کمپنی۔ 3) سر جون ایلرمین کے "ہال"۔ "ولسن" اور "بکنال" لائنز آف اسٹیمرز۔ 4) ہولانڈ امریکن لائنز۔ 5) دی پیسیفک میل اسٹیمشپ کمپنی۔ 6) دی اٹلانٹک اینڈ پیسیفک اسٹیمشپ کارپوریشن۔ 7) دی کمرشل انڈیا لائن۔ دی سویڈش ایسٹ ایشیاٹک کارپوریشن۔ 9) لائیڈ رائل بیلج لمیٹڈ۔ 10) دی اینکر لائن-ہینڈرسن برادرز۔ 11) دی ہالانڈ برٹش لائن۔ 12) کیر اسٹیمشپ کمپنی۔ 13) لائیڈ ٹریسٹینو اسٹیم نیویگیشن کمپنی۔

بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ اب ہم آپ کو بتانے جارہے ہیں کہ کراچی کی کشش اس قدر پٌراثر تھی کہ ان اسٹیمر جہازوں میں مال برداری اور پوسٹل ڈاک کے علاوہ پسینجرز کی بڑی تعداد جن میں کاروباری حضرات کے ساتھ ساتھ "چٌھٹی گزارنے والے" سیاحوں کی بڑی تعداد یہاں کھینچی چلی آتی تھی۔ شہر کے ہوٹلوں۔ بازاروں میں اور سمندر کے کناروں پر جو رونق ہوتی تھی اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ چلیں ہم آپ کو ان اسٹیمر جہازوں میں پسینجر ریٹ بھی بتائے دیتے ہیں:

کراچی پورٹ سے (وایا بمبئی) ایڈیلیڈ کرایہ فرسٹ کلاس کے لیے 86 پونڈ اور سکینڈ کلاس کے لیے 57 پاؤنڈ۔ فریمینتل کے لیے 84 اور 55 پاؤنڈ۔ لیورپول (ڈائریکٹ): 73 اور 59 پاؤنڈ۔ لندن: (وایا بمبئی) 76-90 اور 60-72 پاؤنڈ۔ مارسیلز (وایا بمبئی) 62-86 اور 55 پاؤنڈ/ڈائریکٹ(66-69 اور 53-55 پاؤنڈ)۔ میلبورن (وایا بمبئی) 88 اور 59 پاؤنڈ۔ نیویارک (وایا لیورپول) صرف فرسٹ کلاس 88 پاؤنڈ۔ سڈنی (وایا بمبئی) 90-61 پاؤنڈ۔ وینس 85-65 پاؤنڈز۔ یہ سب گئے وقتوں کی باتیں ہیں اب جو "جن اور پریوں کی ناقابل یقین کہانیاں" لگتی ہیں۔ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے ہمارے اس عظیم شہر کو بین الاقوامی پہچان دی۔

ایشیا کا سب سے زیادہ پٌرامن اور صاف ترین شہر بنایا اور اسی حالت میں 75 سال پہلے (ہماری اپنی خواہش کے مطابق) ہمارے حوالے کرکے خود یہاں سے نکل گئے۔ جو بھی تھے وہ کراچی کو ایک خوبصورت۔ پٌرکشش اور قابل فخر شہر بنا کر گئے۔ ان پچھتر سالوں میں ہم نے کراچی کو کیا دیا اور کیا بنایا اور اسے کس مقام تک پہنچایااس بارے میں سوچ و فکر کرنے کی بہت ضرورت ہے۔

60 کی دہائی میں ہمیں یاد ہے ویسٹ ہارف اور میکلوڈ (آئی آئی چندریگر) روڈ پر انٹرنیشنل اور پاکستانی جہازراں کمپنیوں اور فرموں کے خوبصورتی سے سجے ہوئے دفاتر ہوتے تھے۔ اس وقت کے اخبارات میں عموماً میکینزی۔ کاؤسجی۔ مصطفےٰ گوکل اور دیگر بڑی کمپنیوں کے اشتہارات چھپتے تھے۔ پورٹ (کیماڑی) پر بڑی گہماگہمی اور رونق ہوتی تھی۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ سے پہلے یہاں سے لوگ کم خرچ پر (دو تین سو روپے میں) بمبئی آتے جاتے تھے۔

Check Also

Dimagh To War Gaya

By Basham Bachani