Hum Aur Hamara Anparh Muashra
ہم اور ہمارا انپڑھ معاشرہ
کاش کہ ہمارہ انپڑھ معاشرہ پھر لوٹ آئے، ہم سندھ کے شہر سکھر کے رہائشی تھے لیکن ہمارا ننیال فیصل آباد کے قریب وڈا کوٹلہ کے نام سے آباد تھا۔ ہمارے بزرگوں سے لیکر ہم تک کتنے ان پڑھ گوار اور جاہل تھے لیکن ہر چیز دیسی اور خالص تھی کھانے سے لیکر کر رہن سہن احساس محبت سب خالص تھا ہم نے جب اپنے معاشرے میں آنکھ کھولی تو ایک خوبصورت جہالت کا سامنا ہوا۔ محض 30 سال پہلے ہمارا گاوں وڈا کوٹلہ فیصل آباد کے قریب ہے سڑک، بجلی اور ٹیلی فون جیسی سہولتوں سے تو محروم تھا لیکن سکون اس قدر تھا جسے زندگی کی ہر سہولت ہمیں میسر ہو۔
ایک بار ہم پوری فیملی اپنے ننیال چند روز رہنے کے لیے گیئے تو میرا چھوٹا بھائی جو اس وقت سات سال کے لگ بھگ تھا گاوں میں گم ہوگیا جب ہمارے گھر والوں نے ڈھونڈنے کی کوشش کی تو یہ خبر ناجانے کیسے آس پاس کے دیگر دیہاتوں تک پہنچ گئی اور تمام علاقے کے لوگ اس طرح بچے کو ڈھونڈ نے میں مشغول ہوگیے جیسے ان کا کوئی اپنا گم ہوگیا ہو۔ اس بےلوث ہمدردی کے باعث کچھ ہی دیر بعد برابر کے گاوں والے بچہ لے کر آ گیئے۔
گاوں والوں کی اکثریت انپڑھ تھی لیکن کائنات کی سب سے خوبصورت چیز جو میسر تھی وہ تھی محبت۔ کوئی غیر نہیں تھا سب اپنے تھے۔ نانکے(ننہال) کی طرف والے سب مامے، ماسیاں، نانے نانیاں ہوا کرتی تھیں۔ دادا کے (ددیہال) کی طرف والے سارے چاچے چاچیاں پھوپھیاں دادے اور دادیاں ہوا کرتی تھیں۔ یہ تو جب ہمیں نیا شعور ملا تو معلوم پڑا کہ وہ تو ہمارے چاچے مامے نہ تھے بلکہ دوسری برادریوں کے لوگ تھے۔
ہمارے بزرگ بڑے جاہل تھے کام ایک کا ہوتا تو سارے ملکر کرتے تھے۔ جن کے پاس بیل ہوتے وہ خود آکر دوسروں کی زمین کاشت کرنا شروع کر دیتے۔ فصل اور گھاس کٹائی کے لیے گھر والوں کو دعوت دینے کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ فصل کاٹنے والے خود پیغام بھیجتے تھے کہ ہم فلاں دن آ رہے ہیں۔ فصل کٹائی پر جشن منایا جاتا ڈھول بجاتے اور اپنی پوری طاقت لگا دیتے جیسے انہیں کوئی انعام ملنے والا ہو طرح طرح کے کھانے ان کے لیے آتے تھے سارا دن محفل کا سماں رہتا۔ جب کسی کی شادی ہو تو دولہے کو تو مہندی لگی ہی ہوتی تھی باقی گھر والے بھی جیسے مہندی لگائے ہوئے ہوں کیونکہ باقی ان پڑھ گاؤں یا محلے والے خود آکر کام کرنا شروع کر دیتے۔
گندم، گنا، تربوز اور سبزیاں ہمارے گاوں کی پیداوار ہوتی تھی جب کھیت میں گنے کا جوس نکال کر گڑ بنایا جاتا تو گاوں کے بچے بڑے جتنا مرضی گنے کا تازہ جوس لے کر پی لے کوئی منع نہ کرتا۔ تربوز کی فصل اٹھانے کے بعد کھیت گاوں کے بچوں کے حوالے کر دیا جاتا جو جتنا اٹھا سکتا اٹھا لے جاتا۔ اگر کوئی ایک فوت ہو جاتا یا جاتی تو دھاڑیں مار مار کر سب ایسے روتے کہ پہچان ہی نہ ہو پاتی کہ کس کا کون مرا ہے۔ دوسرے کے بچوں کی خوشی ایسے مناتے جیسے اپنی اولاد ہو ختنے سے شادی تک کا ماحول رنگینیوں سے بھرا ہوتا۔ اتنے ان پڑھ گوار تھے کہ جرم اور مقدموں سے بھی واقف نہ تھے۔
اگر کوئی واقعہ ہو جاتا تو چوہدری کی پنچائت میں فوری فیصلہ کر دیا جاتا۔ لیکن پھر وقت نے کروٹ بدلی اب نئی جنریشن کا دور ہے کچھ پڑھی لکھی باشعور نسل کا دور جس نے یہ سمجھنا اور سمجھانا شروع کیا کہ ہم بیشک سارے انسان ہوں بیشک سب مسلمان بھی ہوں لیکن ہم میں کچھ فرق ہے جو باقی رہنا ضروری ہے۔ وہ فرق برادری کا فرق ہے قبیلے کا فرق ہے رنگ نسل کا فرق لسانیت کا فرق سٹیٹس کا فرق شعور کا فرق ہے۔ اب انسان کی پہچان انسان نہیں ہے برداری ہے قبیلہ ہے اور سب سے بڑھ کر سٹیٹس ہے۔ اب گھر تو کچھ پکے اور بڑے ہیں لیکن دل تنگ ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ وہ زمینیں جو ایک دوسرے کو قریب کرتی تھیں جن کا سینہ چیر کر غلہ اگتا تھا اب اسی پہ لڑنا مرنا شروع کر دیا۔ کاش گلیوں سے صدائیں آئیں۔ کڑیو بالو چیز ونڈی دی لئی جاٶ۔ کاش سائیکل پہ آیا بندہ صدا دے پانڈے کلی کرالو۔ ہم پھر سے لکن میٹی (آنکھ مچولی) کھیلیں۔ شٹاپو۔ کوکلا شپاکی۔ گچی پن۔ ٹھیپو گول گرم۔ لمبی گھوڑی۔ باندر کلا۔ گلی ڈنڈا کھیلیں۔
دوسری طرف لڑکیاں گڈی گڈے کی شادی کریں، پنج گیڈ کھیلیں، درختوں پہ پینگیں ڈالیں، عید شادی پہ مہندیاں لگائیں، دو دو گُتیں کریں لمبے پراندے پہنیں، شادیوں پہ سب اکٹھے ہوکے روایتی ماہیے ٹپے گیت گائیں، ڈھول بجے، شہنائیاں گونجیں، پتاسے، چھوارے بانٹیں، مٹھائیاں بنائی جائیں، چلیبیاں بنیں۔ شادی کا پیغام لے کر نائی آئے اسے ماما چاچا بولا جائے اسے کھانا کھلانے کے بعد کپڑے اور پیسے دیے جائیں۔
کاش کھو سے پانی پینے بھرنے کا موقع ملے، کاش آگ اور راکھ میں آلو اور چھلیاں بھونیں۔ امی ولاں والا پراٹھا بنائیں گڑ والے چاول۔ دودھ کی کھیر، کڑی، ساگ، وڑیاں، بارش والے دن پکوان حلوہ میٹھیاں روٹیاں۔ بٹھی والے والی سے دانے بھنوانے جائیں تندور پہ روٹیاں لگی ہوں چٹی اچار اور لسی کے ساتھ کھائیں۔ کاش وہ وقت لوٹ آئے جب ایک روپے کے 100 ٹیڈی بسکٹ ملیں بڑے بڑے رس لمبے پاپڑ لچھے کھائیں بیریوں سے توڑ کے بیر کھائیں مرغیوں کے کھڈے سے انڈے نکالیں۔
نہروں نالوں چھپڑوں میں نہائیں شہد نکالنے جائیں پرندے پکڑیں پتنگ بازی کریں پانی میں کاغز کی کشتیاں چلائیں گلی سے ابلی چھلی گھر سے روٹی کے ٹکڑے دے کے لیں غبارے بیچنے والا آئے تو خوشی کا ٹھکانہ نا ہو۔ سائیکل کی قینچی چلاتے چلاتے کچے رستے میں گر کر منہ مٹی سے بھر لیں۔ کسی سبزی کے کھانے سے انکار پہ امی سے چھتر پڑیں قمیض کے کف سے ناک صاف کرنے پہ چھتر پڑیں بندر نچانے والے کو آٹا پیسے دیں۔
ہمارا بچپن تو لوٹ نہیں سکتا کاش وہ وقت آج اور آنے والی نسلوں کے لیے لوٹ آئے جب ہم پتھر کے دور میں تھے جس کو آج شعور والے جہالت کا دور کہتے ہیں جب سب خالص تھا کھانے ملاوٹ سے پاک تھے خلوص خالص تھا اپنا پن خالص تھا کوئی رشتہ نا ہونے کے باوجود سب اپنے تھے اپنے رشتے تھے محبت خالص تھی اگر ہم ہمارے بڑے آج کے شعور اور سٹیٹس والوں کے لیے ان پڑھ گوار پتھر کے دور کے جاہل تھے تو ہمیں فخر ہے اس پہ ہم جاہل بھی تھے پاگل بھی تھے کیونکہ ہم محبت والے تھے۔