Benazir Bhutto
بے نظیر بھٹو
مسلم دنیا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو انھیں اپریل 1969 میں پولیٹیکل سائنس کی انڈر گریجویٹ ڈگری کے لیے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے ریڈ کلف کالج بھیج دیا گیا۔ سنہ 2016 میں امریکہ سے شائع ہونے والی بروُک ایلن کی کتاب فیورڈ ڈاٹر، کے مطابق بےنظیر کی عمر اس یونیورسٹی میں داخلے کے لیے کم تھی مگر بااثر ذوالفقار بھٹو نے کچھ ڈوریاں ہلا کر، بالآخر اُن کا داخلہ یقینی بنایا اور ہارورڈ یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر (اور بعد میں انڈیا کے لیے امریکہ کے سفیر بننے والے) جان کینیتھ گیل بریتھ کو بے نظیر کا سرپرست مقرر کیا گیا۔
بےنظیر کو امریکہ میں زندگی خاصی مشکل لگی اور اس کتاب کے مطابق اُن کی یونیورسٹی کی ایک دوست کا کہنا تھا کہ بےنظیر نے پہلے سمیسٹر کا زیادہ تر وقت روتے ہوئے گزارا۔ لیکن پھر وہ ہارورڈ میں اپنے ہاسٹل ایلیٹ ہاؤس، کی سوشل سیکریٹری بھی بنیں اور والد کی طرح امور خارجہ میں دلچسپی رکھنے والی بےنظیر اُسی زمانے میں ویتنام کی جنگ میں امریکہ کے شامل ہونے کے خلاف مہم میں بھی سرگرم رہیں۔
سنہ 2008 میں شائع ہونے والی انڈین نژاد برطانوی صحافی شیام بھاٹیہ کی کتاب گُڈ بائے پرنسز، اور بروک ایلن کے مطابق سنہ 1971 میں اُن کے ہارورڈ کے زمانہ طالب علمی کے دوران ہی جب ذوالفقار بھٹو پاک، انڈیا جنگ کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے نیویارک پہنچے تو انھوں نے بےنظیر کو بھی وہیں بلوا لیا۔ تربیت کے ایسے ہی مواقعوں کے ذریعے ذوالفقار بھٹّو نے بےنظیر کو امورِ خارجہ کے اَسرار و رُموز سمجھائے۔
1972 میں بےنظیر بھٹو ایک بار پھر پاکستان، انڈیا مذاکرات میں والد کے ہمراہ نظر آئیں۔ اس مرتبہ وہ مشہورِ زمانہ شملہ معاہدے کی تقریب میں شرکت کی غرض سے انڈیا پہنچیں جہاں وہ پہلی بار وزیر اعظم اندرا گاندھی سے بھی متعارف ہوئیں۔ سنہ 1973 میں ہارورڈ سے تعلیم مکمل ہونے پر بےنظیر نے فلسفے، سیاسیات و معاشیات کی تعلیم کے لیے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے لیڈی مارگریٹ ہال کالج کا رُخ کیا جہاں سے وہ سیکنڈ کلاس میں کامیاب ہو سکیں۔ پھر والد کے اصرار پر انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک اور ادارے سینٹ کیتھرینز کالج سے بین الاقوامی قانون و سفارتکاری میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری بھی حاصل کی۔
شیام بھاٹیہ کے مطابق آکسفورڈ میں وہ تیسری دنیا کی ایک روایتی رئیس زادی کے طور پر بھی رہیں مگر کئی دوست بھی بنائے۔ بعض دوستوں کے مطابق وہ خوش مزاج لیکن متجسس، شخصیت تھیں۔ سنہ 1974 میں بےنظیر کو اس وقت معمّر قذافی، انور السادات، شاہ حسین اور شاہ فیصل جیسے مسلم رہنماؤں سے ملاقات کا موقع اس وقت ملا جب وہ لاہور میں اپنے والد کے ساتھ اسلامی تعاون تنظیم کی سربراہی کانفرنس میں شریک ہوئیں۔ ہارورڈ اور آکسفورڈ جیسے اداروں کی اعلیٰ تعلیم اور کم عمری میں عالمی رہنماؤں سے ملاقاتوں نے بےنظیر بھٹو کی سیاسی تربیت کو مزید نکھار دیا۔