Toota Hua Tara (2)
ٹوٹا ہوا تارہ (2)
عبدرالرحمن۔
ان بستیوں کا الٹ جانا اکثر ڈیڈ سی میں ایک زلزلے کی وجہ سے سمجھا جاتا ہے۔ یہ مقام اردن میں ہے جس کے نیچے ایک بہت بڑی فالٹ لائن ہے اور ایسی جگہوں پر زلزلوں کا آنا عام بات ہوتی ہے۔ زلزلے سے ڈیڈ سی کی تہہ میں موجود تارکول کا دھماکے کے ساتھ نکل کر آسمان کی طرف جانا اور پھر گرتی ہوئی آگ اور پتھروں کی بارش کی صورت میں زمین پر واپس آنا بھی سائنسی طور پر ثابت ہو سکتا ہے۔
عبدرالرحمن۔
1490 میں چین میں ایک دستاویز لکھی گئی تھی جس میں انہوں نے بارویں صدی سے لے کر سولہویں صدی تک ہر وہ مشاہدہ ریکارڈ کیا ہے جو انہوں نے آسمان میں ہوتے دیکھا۔
ان میں سے پہلے واقعے میں کچھ اس طرح لکھا ہے کہ:
"صبح کا وقت تھا اسمان صاف تھا لیکن اچانک شمال سے ایک گرج سنائی دی جو بہت جلد سے ایک انتہائی اونچی آواز میں بدل گئی اس کے بعد مٹی اور گرد کے بادل نظر آئے اور بہت تیز ہوا چلنے لگی۔ ہمارے مکان ہلنا شروع ہو گئے اور پھر ایک تیز روشنی چمکی اور ایک ایسا زوردار دھماکہ ہوا کہ جیسے آسمان پھٹ گیا اور زمین اکھڑ گئی جہاں تک نظر آ رہا تھا وہاں اندھیرے چھا چکا تھا۔ ہمارا سارا شہر اپنی جگہ سے اکھڑ چکا تھا گلیاں پہچانی ہی نہیں جارہی تھیں۔ دھماکے کی قوت اس قدر زیادہ تھی کہ بڑے بڑے درخت بھی اپنی جگہ سے اکھڑ کر دوسری جانب جا گرے تھے اور ہمارے شہر کا تین ٹن وزنی پتھر کا شیر شہر کی بیوار کے باہر پڑا ہوا ملا۔
جس جگہ دھماکہ ہوا تھا وہاں 22 فٹ گہرا گڑھا پڑ گیا۔ وہاں بننے والے بادل بھی بہت عجیب سے تھے ریشم کے بکھرے ہوئے دھاگوں جیسے بادل۔ ان میں سے کچھ بادلوں کے اندر بہت زیادہ رنگ نظر آ رہے تھے اور کچھ بادل ایک کالی کھمبے کی طرح تھے جو کئی گھنٹے تک آسمان میں اوپر اٹھتے رہے۔ ہمارے شہر کے بہت سے لوگ مر چکے ہیں۔ بہت سے لوگ زخمی ہیں اور بہت سے لوگ لا پتہ ہو چکے ہیں۔ ہمیں کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ وہ کہاں گئے اور ہم میں سے کچھ لوگ تو اپنے گھروں میں ہی زندہ دفن ہو چکے ہیں۔ ہمارے بادشاہ کے سات ماہ کے بیٹے شہزادہ یوک کی صرف اس دھماکے کی آواز سے ہی موت ہوگئی تھی"۔
ایک اور واقعہ منگ ڈینسٹی کی آفیشل ہسٹری کے ریکارڈ میں لکھا ہوا۔ یہ واقعہ 1490 کے چین کے شانکسی صوبے میں ہوا تھا اور اس کی عبارت یوں ہے:
"چاند کے تیسرے مہینے یعنی مارچ اپریل میں آسمان سے انگنت پتھروں کی بارش ہوئی جو بطخ کے انڈے جتنے بڑے تھے۔ یہ پتھر آسمان سے بارش کی طرح برس رہے تھے۔ ان میں سے بڑے والے پتھر ڈیڑھ کلو اور چھوٹے والے پتھر ایک کلو تک کے تھے۔ دس ہزار سے زیادہ لوگ مرچکے تھے۔ شہر اجڑ چکاتھا اور باقی لوگ دوسرے شہروں کی طرف چلے گئے۔
مجھے یقین ہے تم سوچ رہے ہو گے کہ آخر یہ کون سی قیامت تھی جس نے لمحوں میں اتنے بڑے شہروں کو الٹا کر رکھ دیا۔ پہلے ایک گرج، پھر ایک تیز آواز، پھر شدید ہوا، پھر ایک دھماکہ اور پھر اگلے لمحے سینکڑوں انسان زندہ دفن ہوئے پڑے ہوں۔ جس کے دھماکے کی آواز ہی چھوٹے بچوں کی ہارٹ فیل کردینے کے لیے کافی ہو؟
عبدا لرحمان۔
چلو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب خلا سے آنے والا پتھر کا ایک بڑا ٹکڑا ہماری اس دنیا کی فضا میں داخل ہوتا ہے تو ہماری فضا کی رگڑ سے وہ جل اٹھتا ہے جسے لوگ اکثر رات کو آسمان میں ٹوٹتے ہوئے ایک ستارے کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ ہم انہیں شہاب ثاقب کہتے ہیں۔
عموماً یہ شہاب ثاقب بہت چھوٹے سائز کے ہوتے ہیں زیادہ تر چاول کے دانوں کے سائز کے اور زیادہ سے زیادہ ہاتھ کی مٹھی کے سائز کے۔ لیکن کبھی کبھی سائز میں ان سے کہیں بڑے پتھر بھی ہماری دنیا کا رخ کر لیتے ہیں اور جب یہ بڑے پتھر یا ایسٹروائیڈز ہماری فضا میں داخل ہوتے ہیں تو وہ بھی جل اٹھتے ہیں جب بڑے بڑے پتھر جل اٹھیں تو وہ آگ کے ایک گولے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ہم انہیں فائر بال یا پھر بولائڈ BOLIDE کہتے ہیں۔
یہ بولائڈ چودھویں کے چاند سے دو گنا زیادہ روشن ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی سائز میں بڑے شہاب ثاقب ایک سوپر بولائڈ SUPER BOLIDE میں تبدیل ہو جاتے ہیں جن کی روشنی چودھویں کے چاند سے کئی گنا زیادہ روشن ہوتی ہے۔ لیکن اگر یہ شہاب ثاقب اس سے بھی بڑے ہوں تو پھر فضا کی رگڑ اور آگ میں جلنے کی وجہ سے یہ پھٹ جاتا ہے اور اس کو مٹیور ایئر برسٹ METOER AIR BURST کہتے ہیں۔
چھوٹے سائز یعنی ایک سے ڈیڑھ فٹ کے شہاب ثاقب تو بڑے عام ہیں یہ 100 کلومیٹر کی انچائی پر عموماً پھٹتے ہیں لیکن یہ اونچائی بہت زیادہ ہے اور ان کے پھٹنے سے پیدا ہونے والی توانائی اتنی کم ہوتی ہے کہ اکثر تو ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا اور پھر ان کے پھٹنے سے پیدا ہونے والے پتھر بھی بہت ہی چھوٹے چھوٹے ہو کر ہماری زمین تک پہنچتے ہیں۔
بڑے سائز کے ٹوٹے ہوے تارے یعنی کہ 12 فٹ سائز کا ایک شہاب ثاقب عموماً 40 کلومیٹر کی اونچائی پر پھٹتا ہے اور اس کے پھٹنے سے تقریباً ایک ہزار ٹن کے قریب توانائی پیدا ہوتی ہے ایسا ہر ڈیڑھ سے دو سال میں ایک مرتبہ ہی ہوتا ہے لیکن اس کے پھٹنے سے پیدا ہونے والی توانائی اور اس توانائی سے ہونے والی تباہی کے متعلق یوں سمجھ لیں کہ اس شہاب ثاقب کے چند سو میٹر کے اندر اندر تک کی تمام چیزیں مکمل تباہ ہو سکتی ہیں۔
پھر اس سے بھی بڑا یعنی33 فٹ سائز کا ایک شہاب ثاقب عموماً 32 کلومیٹر کی اونچائی پر پھٹتا ہے اور اس کے پھٹنے سے پیدا ہونے والی توانائی بیس ہزار ٹن سے زیادہ ہوسکتی ہے لیکن ایسا ہر دس سال میں ایک مرتبہ ہوتا ہے اور یوں سمجھ لیں کہ اس کے پھٹنے سے پیدا ہونے والی توانائی چند کلو میٹرز تک تمام چیزوں کو تباہ کر سکتی ہے۔
سائنس کے مطابق بہت بڑے ٹوٹے ہوۓ تارے مثلاً 100.98 فٹ بڑے شہاب ثاقب تقریباً ہر 185.200 سال بعد زمین کی طرف آتا ہےاور زمین سے صرف 17 کلو میٹر اوپر پھٹتا ہے اور اس کے پھٹنے سے ساڑھے نو لاکھ ٹن کی توانائی پیدا ہوتی ہے۔ جو یقینا انسان کے بنائے ہوئے کسی بھی اسٹرکچر کو پرزہ پرزہ کرنے کے لیے کافی ہے۔
آخری مرتبہ یہ واقعہ 15 فروری 2013 کو ہوا تھا۔ روس کے اوپر ہوا میں ایک 66 فٹ کا شہاب ثاقب صرف 30 کلومیٹر کی اونچائی پر پھٹا تھا۔ 69,000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے روس کے اوپر سے گزرتے اس ٹوٹے ہوۓ تارے کی روشنی تھوڑی دیر کے لیے سورج سے بھی زیادہ ہوگئی تھی اور اس کے پھٹنے سے پیدا ہوئی توانائی ہیروشیما والے ایٹمی دھماکے سے 33 گناہ زیادہ تھی۔
اس ٹوٹے ہوۓ تارے کو زمین کی طرف آتے ہوئے ڈیٹیکٹ بھی نہیں کیا جا سکا تھا کیونکہ یہ سیدھا سورج کی طرف سے آرہا تھا اور جب تک اس کے آنے کا پتہ چلا تب تک بہت دیر ہو چکی تھی اور جب یہ پھٹنے کے بعد جل اٹھا تو سو کلومیٹر دور تک کے رہنے والوں نے بھی اسے دیکھا اور اس سے پیدا ہونے والی شاک ویو صرف دو منٹ تئیس سیکنڈ میں زمین تک پہنچ گئی۔ اس دھماکے میں سات ہزار سے زیادہ عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ پندرہ سو لوگ زخمی ہوئے۔ یہ ایک معجزہ ہے کہ اس کے پھٹنے سے پیدا ہوئے ٹکڑے بالکل بیابانوں میں جا کر گرے تھے اور اس کا سب سے بڑا یعنی ساڑھے چھے سو کلو کا ایک ٹکڑا ایک جھیل میں گرا تھا۔
اتنے بڑے شہاب ثاقب کا پھٹ جانا ہی اچھا ہوتا ہے کیونکہ اگر اتنا بڑا ٹکڑا زمین کے اوپر ہوا میں نہ پھٹ جائے تو اس سے زمین پر کئی سو کلومیٹر تک درخت اکھڑ کر گر جائیں گے اور اس تمام علاقے میں زندگی ختم ہو جائے گی۔ پھٹنے کے ٹھیک نیچے زمین میں ایک بہت بڑا گڑھا بن جائے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس گڑھے سے پانی اُبل اُبل کر نکلنا شروع ہو جاۓ۔
اس وقت جو بھی بدقسمت شہر یا ملک اس واقعے کے ٹھیک نیچے ہو، بھلا، وہاں پر کوئی زندہ بچے گا۔
شاید آج سے ساڑھے چھے کروڑ سال پہلے ایسا ہی ہوا ہوگا کہ ایک تارہ بغیر پھٹے پوری قوت کے ساتھ جا کر زمین سے ٹکرایا ہوگا اور شاید یہی وہ واقعہ ہوگا کہ جس نے اس پورے کرہ ارض پر سے ڈائنو سارس کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اس کے ٹکرانے سے اس قدر گرد، مٹی اور بھاپ ہوا میں اٹھیں کہ اگلے دو سال تک سورج کی کوئی شعاع زمین تک نہیں پہنچ سکی۔ پودے، درخت اور جتنی بھی نباتات تھیں ان سب کا خاتمہ ہوگیا۔ کئی ہفتوں تک پوری دنیا میں 9 سے لے کر 11 میگنیٹیوڈ تک کے زلزلے آتے رہے تھے۔
عبدا لرحمان۔
اب تم کو محسوس ہو رہا ہوگا کہ ایک شہاب ثاقب کے آسمان میں پھٹ جانے میں ہی عافیت ہے ورنہ دیکھا جائے تو اتنے بڑے ٹوٹا ہوا تارہ اگر بغیر پھٹے ہی زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہو؟ سوچو، 14000 ٹن کا پتھر زمین سے ٹکرا جائے تو کیا ہوسکتا ہے؟
اور یہ بات ذہن میں رکھو کہ ہم تو بہت ترقی یافتہ انسانی نسل ہیں۔ اور ہمیں تمام تر سائنسی ترقی کے اس ٹوٹے ہوۓ تارے کے آنے کا پتہ بھی نہیں چلا تھا۔
شاید لوط کی قوم کو بھی معلوم نہیں ہوا ہوگا کہ ان پر ٹوٹا ہوا تارہ گر گیا ہے۔