Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sarfaraz
  4. Toota Hua Tara (1)

Toota Hua Tara (1)

ٹوٹا ہوا تارہ (1)

عبدالرحمان۔

آج کا خط شروع کرتے ہیں حضرت ابراہیمؑ کے ان دو مہمانوں سے جن کے آنے سے ابراہیمؑ ڈر گئے تھے سورة ہود کے مطابق جب ہمارے بھیجے ہوئے پیغامبر ابراہیم کے پاس پہنچے اور سلام کہا تو انہوں نے بھی سلام کا جواب دیا اور بغیر کسی تاخیر کے گائے کا بھنا ہوا گوشت لے آئے اور جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ تو اس کھانے کی طرف نہیں جا رہے تو ان سے اجنبیت محسوس کرکے دل ہی دل میں ان سے خوف کھانے لگے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ ڈرو نہیں ہم تو لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔

حضرت ابراہیمؑ کے دو بھائی اور بھی تھے نوہر اور ہران۔ ہران کے ایک بیٹے تھے جن کا نام لوط تھا یعنی ابراہیمؑ کے ایک بھتیجے لوط جن کا بچپن تو ارخ شہر میں ہی گزرا تھا لیکن شدید قحط کے بعد وہ اپنے چچا ابراہیمؑ اور ان کی بیوی سارہؑ کے ساتھ مصر چلے گئے تھے۔ مصر کے بعد ابراہیمؑ اپنی بیوی سارہؑ کے ساتھ ہیمران چلے گئے تھے جو آج فلسطین میں ہے اور لوطؑ صدوم کی طرف چلے گئے تھے۔

خیر ہم بات کر رہے تھے کہ ابراہیمؑ کے دو مہمان فرشتوں کی۔ انہوں نے ابراہیم کو بتایا کہ وہ حضرت لوطؑ کی قوم پر عذاب لانے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔

تم یقینا جانتے ہو گے لیکن سب سے عام فہم زبان میں ان لوگوں کا جرم تھا ہم جنس پرستی۔ اور ان کے اس جرم کا ذکر، تم کو سورة اعراف میں بھی ملے گا، سورة العنکبوت میں بھی ملے گا اور سورة نمل میں بھی۔ جہاں حضرت لوطؑ ان لوگوں کو سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم لوگ ایسا فحش کام کر رہے ہو کہ جو تم سے پہلے اس دنیا میں کسی نے نہیں کیا۔ تم لوگ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے ساتھ شہوت زنی کرتے ہو؟ تم تو بڑے ہی جاہل ہو اور جب ان لوگوں کے پاس دینے کو کوئی جواب یا کوئی وجہ نہ بچی تو سورة اعراف کے مطابق انہوں نے وہی کہا کہ جو سرکشی پر ڈٹے ہوئے بدبخت لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ نکال دو انہیں اس شہر سے یہ بڑے پاک صاف بنتے ہیں۔

لیکن ان تمام گناہوں کے بعد ان سے ایک بڑی سخت غلطی ہوگئی سورة العنکبوت کے مطابق اپنی بدمستیوں میں حضرت لوطؑ سے ایک بات کہہ بیٹھے کہ پھر لا کر دکھاؤ عذاب اور سورة العنکبوت کی ٹھیک اس آیت سے اگلی ہی آیت میں حضرت لوطؑ کا بھی جواب ہے کہ اے اللہ اس مفسد قوم کے مقابلے میں میری مدد کر دے۔۔

عبدرالرحمن، بات پھر کہیں اور چلی گئی۔۔ ہاں۔۔ جب ابراہیمؑ کا ان آنے والے مہمانوں کے ارادوں کا علم ہوا اور تو وہ ان سے لوط کی قوم کے بارے میں جھگڑنے لگے حضرت ابراہیمؑ نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح فرشتے ابراہیمؑ کی بات مان لیں اور عذاب دیئے بغیر ہی واپس چلے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ کیا وہاں تین سو مسلمان بھی نہیں ہیں؟ فرشتوں نے کہا کہ وہاں تین سو بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہاں چالس مسلمان تو ہوں گے؟ فرشتوں نے کہا کہ وہاں چالس بھی نہیں ہیں؟ ابراہیمؑ نے پھر کہا کہ چودہ مسلمان تو ہوں گے؟ لیکن فرشتوں نے کہا کہ وہاں چودہ بھی نہیں ہیں۔ بالاخر سورة انکبوت میں آتا ہے کہ انہوں نے پھر صرف لوطؑ کا ہی کہہ دیا کہ وہاں لوط تو ہیں ناں اور پھر اس پر فرشتوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ وہاں لوط ہیں۔ لہٰذا انہیں اور ان کے اہل و عیال کو ہم بچا لیں گے سوائے ان کی بیوی کے کیونکہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہو جاۓ گی۔ سورة ہود کی مطابق فرشتے کہنے لگے کہ ابراہیم اس خیال کو چھوڑ دیں کیونکہ آپ کے رب نے حکم دے دیا ہے اور اب اس حکم نےٹلنا نہیں ہے۔

عبدا لرحمان۔

شاید پچھلے خط میں میں نے تم کو حضرت ابراہیمؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے گئے دو القابات کے بارے میں بتایا تھا ایک بہت نرم دل انسان اور دوسرا اللہ تعالیٰ کے دوست کا لقب (خلیل اللہ)۔ ان دونوں القابات کو سمجھنے کے لئے سورة ہود کی آیت 74 پڑھو کہ وہ اپنی طرف سے بھرپور کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح سے ان فرشتوں کو راضی کیا جا سکے کہ وہ عذاب نہ دیں۔

یہاں سے آگے کے واقعات تم نے سن رکھے ہوں گے کہ کیسے وہ فرشتے حضرت ابراہیمؑ کے پاس سے چلے اور لوطؑ کے گھر پر دو بہت خوبصورت مردوں کی شکل میں پہنچے۔ جب اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجہ سے بہت ہی غمگین ہوئے اور اس مقام پر حضرت لوطؑ کا اپنی قوم سے ایک مکالمہ ہوا تھا جو سورة ھود میں موجود ہے کہ جب بدکاریوں میں مبتلا ہو چکی ان کی قوم دوڑتی ہوئی ان کے پاس آئی تو لوط نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگوں مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوا نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو کیا تم میں ایک بھی اچھا انسان نہیں ہے؟ اور آگے سے ان کے لوگوں نے کیا جواب دیا تھا؟ سورة حج میں ہے کہ لوط کیا ہم نے آپ کو ساری دنیا کی ٹھیکے داری سے منع نہیں کیا تھا؟ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمیں کیا چاہیے اور لوطؑ بولے کہ کاش مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی ہمت ہوتی!

عبدا لرحمان۔

آخر کار حضرت لوطؑ بھی کہہ اٹھے کہ اللہ کی قسم میں نے روع زمین پر اس شہر والوں سے زیادہ خبیث اور کوئی لوگ نہیں دیکھے۔ اور یہی حکم ان فرشتوں کو بھی تھا کہ تب تک اس عذاب کو نہیں آنے دینا جب تک خود ان کے پیغمبر ان کی برائی نہ کر دیں اور ان کے خلاف گواہی نہ دے دیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ان فرشتوں نے حضرت لوطؑ کی سامنے اپنی حقیقت بتائی اور رات کے آخری پہر انہیں شہر چھوڑ کر چلے جانے کا کہہ دیا۔

سورة حجر کے مطابق کہ لوطؑ ہمیں آپ کے رب نے بھیجا ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ آپ کی قوم آپ تک پہنچے لہٰذا آپ اپنے گھر والوں کو اپنے ساتھ لیں اور رات کا تھوڑا سا حصہ باقی رہتا ہوں تو یہ شہر چھوڑ کر چلے جائیں لیکن آپ میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے۔

ان بدترین واقعات کا سلسلہ رات دیر تک جاری رہا یہاں تک کہ رات کا تھوڑا ہی حصہ باقی رہ گیا تو تفسیر ابن جریر کے مطابق یہ وہ وقت تھا جب جبرئیلؑ نے اپنے پروں کو ان لوگوں کے چہروں پر مارا جس سے پھر وہ اندھے ہو گئے تھے۔ سورة قمر میں اس حوالے سے ایک آیت بھی موجود ہے کہ ان لوگ نے ان کے مہمانوں کو لینا چاہا تو ہم نے ان کی آنکھیں اندھی کر دیں اور تب جبکہ بالکل تھوڑی سی رات کا باقی حصہ رہ گیا تھا اور صبح کا وقت قریب آ گیا تھا تو حضرت لوطؑ ان دونوں بیٹیوں کو لے کر گھر سے نکل پڑے [وہی دونوں بیٹیاں ہی ان کا کل گھرانہ تھیں ]۔

عبدا لرحمان۔

صدوم اور آمورہ نامی شہروں پر وہ بھیانک قیامت ٹوٹی جس کے متعلق فرشتوں نے حضرت ابراہیمؑ کو بتا دیا تھا کہ اب اس کو ٹالنا ممکن نہیں ہے۔ سورة حجر کے مطابق سورج نکلتے نکلتے انہیں ایک بڑی زور کی آواز آئی۔ سورة قمر کے مطابق ایک بہت بری ہوا چلنا شروع ہوئی جس میں پتھر برس رہے تھے۔۔ سورة نمل اور سورة ھود کے مطابق شہر پر ایک خاص طرح کے کنکر والے پتھروں کی بارش شروع ہوگئی۔ یہ پتھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشان لگے ہوئے تھے اور یہ بہت برے طریقے سے ان لوگوں پر تہہ بہ تہہ برسے چلے جا رہے تھے یہاں تک کہ اس شہر کا اوپر کا حصہ نیچے ہوگیا اور نیچے کا حصہ اوپر وہ شہر بالکل پلٹا دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے سورة توبہ میں انہیں اہل وَ الْمُؤْتَفِكٰتِؕ یعنی کہ الٹا دی جانے والی بستیوں کے رہنے والی کا نام دے دیا۔

عبدالرحمن۔

آشوری تہذیب کے ایک بریٹش ایکسپرٹ آرکیالوجسٹ ڈاکٹر آچی بالڈ سوائس نے ایک آکیڈین نظم ترجمہ کی تھی جس میں وہ لوگ ایک ایسے شہر کا ذکر کرتے ہیں جس پر آگ کی بارش ہو رہی تھی پھر 1976 میں شام سے کچھ ٹیبلٹس ملی تھی جنہیں ابلا ٹیبلٹس کہتے ہیں۔ 1800 پوری کی پوری ٹیبلٹس اور پانچ ہزار کے قریب ٹکڑے جن پر چار سے ساڑھے چار ہزار سال پرانی باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ ان ٹیبلٹس میں پانچ ایسی جگہوں کی نام ہیں جو ڈیڈ سی یعنی بحیرہ مردار کے قریب آباد تھی اور ان میں سے دو کے نام سیدھا مو اور امار تھے جو کہ صدوم اور آمورہ سے ملتے جلتے ہیں۔

ڈھائی ہزار سال پہلے گزرے ایک بہت بڑی یونانی تاریخ دان سٹریابو اپنے سفر میں فلسطین سے گزرتے ہوئے ڈیڈ سی کے پاس ایک شہر کا تذکرہ کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ مصادو کے رہنے والوں نے مجھے بتایا ہے کہ کسی وقت میں اس جگہ تیرہ شہر آباد ہوا کرتے تھے جن میں سے دو شہر چونے کے پتھر اور نمک کے پہاڑوں کے قریب آباد تھے۔ ان میں سے ایک شہر کا نام خربت السدون تھا۔ ابلا ٹیبلٹس اور قرآن کی وہ دونوں آیات اس لوکیشن کو کنفرم کرتی ہیں کیونکہ تبوک سے یروشلم جاتے ہوئے یہ جگہ ہر دفعہ راستے میں پڑتی ہے۔

جاری۔۔

Check Also

Mard Ki Muhabbat, Shiddat Ki Inteha

By Amirjan Haqqani