Salsaal (3)
صلصال (3)
لیکن زندگی آخر کہتے کسے ہیں؟ اس وقت زندگی کی 123 مختلف تعریفیں (definitions) ہیں کہ زندگی کیا ہے؟ ہم یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے ہیں کہ زندگی کسے کہتے ہیں؟ لیکن ہم زندگی کی متعلق جانتے ہی کیا ہیں؟ اس کی کتنی اقسام ہیں؟ اس کی کیا کیا شکلیں ہیں؟
ہم تو صرف ایک قسم کی زندگی سے واقف ہیں جو اس دنیا میں رہتی ہے۔ پھر بھی زندگی کی ایک تعریف کہ جو مقبول ہے accepted ہے وہ یہ ہے کہ کوئی بھی ایسی چیز جو تین کام کر سکے وہ زندہ کہلاتی ہے پہلا کام کہ اس کے جسم میں metabolism یعنی کہ کسی نہ کسی قسم کا chemical process ہوتا ہو۔ دوسرا یہ کہ اس کے جسم میں خود کو repair کرنے کی صلاحیت موجود ہو اور تیسرا یہ کہ وہ اپنی نسل بڑھا سکے۔
اب زندگی پہلی مرتبہ کیسے پیدا ہوئی تھی یہ بات کوئی نہیں جانتا۔ کئی موڈلز پیش کیے جا چکے ہیں لیکن کسی ایک پر بھی اتفاق نہیں۔ لیبارٹریز میں ہزاروں تجربات ہو چکے ہیں لیکن آج تک کوئی زندگی نہیں بنا سکا اور بنا بھی نہیں سکے گا کیونکہ زندگی کا مردہ زمین سے پیدا ہونا ایک معجزہ تھا اور اس معجزے کا ذکر سورہ الروم میں صرف ایک ہی ہستی سے منسوب ہے کہ اللہ ہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے وہی تو زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے۔
زندگی سوائے اللہ کے اور کوئی پیدا کر ہی نہیں سکتا اب مردہ زمین سے زندگی کیسے نکلی؟
اس کے سب سے پرانے ثبوت کینیڈا میں پونے چار ارب سال پرانی کائی کے فوسلز ہیں۔ کائی یعنی کہ الجی algae جو ٹیکنیکلی ایک جاندار ہے اور اسی کائی کے ساڑھے تین ارب سال پرانے فوسلز آسٹریلیا میں ہیں۔ انہیں ہم نامیاتی مادے organic matter کہتے ہیں۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس organic matter کا ایک حصہ glycine سن 2009 میں ایک دمدار ستارے یعنی comet wild 2 کے اوپر بھی ملا تھا۔ اس میں ایک بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ اس وقت بھی کائنات کے دور دراز کونوں میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی ارض پر زندگی پیدا ہو رہی ہے۔
https: //www.nasa.gov/mission_pages/stardust/news/stardust_amino_acid.html
ابتدا میں زندگی بالکل بھی ویسی نہیں تھی کہ جیسی آج ہم دیکھتے ہیں دراصل ساڑھے تین ارب سال پہلے تک تو وہ ناقابل شناخت سی چیز تھی چھوٹے چھوٹے مائکرو بیل جان دار microbial organism۔ پھر دو بڑی ہی شدید سردیاں آئیں اور اس کے بعد جو زندگی پیدا ہوئی وہ تو بالکل ایک نئی زندگی تھی۔ سائز میں بڑی اس میں مسلز muscles یعنی پٹھے بھی تھے۔ اور سب سے بڑی بات کہ زمین میں درخت پیدا ہونا شروع ہوئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ کوئی نہیں جانتا ہمیں صرف اتنا علم ہے کہ 54 کروڑ سال پہلے اس زمین پر ایک نئی ہی دنیا آباد ہوگئی۔
نہ جانے کیوں یہاں سورہ الواقعہ کی 61 آیت ذہن میں آتی ہے جہاں رب کائنات کہتا ہے کہ ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری جگہ تم جیسے دوسرے پیدا کر دیں اور تمہیں ایک نئے سرے سے ایسے عالم میں پیدا کر دیں جس سے تم بالکل بے خبر ہو۔
واقعی اللہ اس پر قادر ہے۔
عبدالرحمٰن۔ یہ تو ایک مرتبہ 54 کروڑ سال پہلے بھی ہو چکا ہے۔
پہلی کے مقابلے میں دوسری زندگی زمین آسمان کے فرق کے ساتھ پیدا ہوئی تھی۔ پہلی زندگی کائی بیکٹیریاز یا پھر کچھ مائیکرو جاندار تھے۔ لیکن دوسری زندگی ہڈیوں والے جانور، ریڑھ کی ہڈی والے جانور، جبڑوں والے، پانی میں رہنے والے، خشکی میں رہنے والے یہاں تک کہ پرندوں کی بھی ابتدائی حالت سے جدید شکل۔ اسی وقت سب سے پہلے کیڑے بھی وجود میں آئے تھے۔ ان دو بالکل مختلف زندگیوں کو دیکھ کر سورہ العنکبوت کی بیسویں آیت ذہن میں آتی ہے کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ اللہ نے کیسے شروع میں پیدائش کی پھر اللہ ہی دوسری نئی پیدائش کرے گا اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
یہی وہ زندگی تھی کہ جس میں بعد میں ڈائناسارس Dinosars پیدا ہوئے۔ بڑے بڑے ہاتھی۔ نہایت خوفناک قسم کے چوہے۔ بےحد بڑی شارک مچھلیاں۔ لیکن ان دیو ہیکل جانوروں میں سے آج کوئی بھی زندہ نہیں ہے۔
سورہ طٰحہ کی اس آیت کو دیکھیں کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سے عہد یا دور ہلاک کر دئیے جن کے رہنے کے مقامات میں یہ چلتے پھرتے ہیں اس میں سمجھنے والوں کے لیے بہت سی نشانی ہے۔
بیشک اس زمین میں کم سے کم پانچ مرتبہ ایسا ہوا کہ ان جانوروں کے پورے کے پورے عہد یا ان کے رہنے کے مقامات ہلاک اور تباہ ہو گئے۔ اس phenomena کو سائنس کی زبان میں ہم Top Five Extinctions کہتے ہیں۔
کبھی پچیس کروڑ سال پہلے زمین کے 96% جاندار ڈائناسارس سمیت مر گئے اور صرف وہی بچے جو زمین کے نیچے چھوٹے چھوٹے بلوں میں چھپ کر رہ رہے تھے۔ اس کے بعد زمین پر ایک ایسی چیز پیدا ہوئی جو شاید اس سے پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی اور اس چیز کی پیدائش کا ذکر سورۃ الاعلیٰ میں اللہ کی تعریف کے ساتھ ہے کہ اپنے بلند رب کی پاکیزگی بیان کر جس نے تخلیق کی۔ جس نے صحیح اندازہ کیا اور پھر راہ دکھائی۔ وہ بلند رب جس نے چارا (تازہ گھاس) پیدا کی۔
گھاس کے متعلق تم کیا جانتے ہو؟
یہی وہ گھاس تھی جس کی پیدائش نے زمین پر رہنے والوں کی فیزیولوجی physiology بدل دی اگر گھاس نہ ہوتی تو شاید آج بھی اس زمین کے اوپر ڈائناسارس دندناتے پھر رہے ہوتے۔ لیکن اس گھاس کی پیدائش کے بعد گوشت خوروں کا عہد ختم ہوگیا اور زمین کے نیچے چھپے چھوٹے چھوٹے جانور باہر نکل آئے اور گھاس کی فراوانی سے ان کے سائز بڑے ہوتے گئے اور میمل وجود میں آئے۔ پودے اور وہ درخت اگنا شروع ہوئے جو آج ہم دیکھنے کے عادی ہیں۔
ارض کے بارے میں بہت ہی پرسرار سی آیت سورۃ الطلاق میں آیت نمبر بارہ ہے کہ وہ اللہ ہی تو ہے جس نے سات آسمان بنائے اور انہی کی طرح زمینیں بھی اور اس کا حکم ان کے درمیان اترتا رہتا ہے۔ یہ وہ آیت ہے جس نے ایک سے زیادہ ارض یا سات زمینوں کا کونسپٹ پیدا ہوا تھا۔ ان زمینوں کی تعداد آپ ﷺ کی اس حدیث سے لی جاتی ہے کہ جس نے ظلم سے ایک بالشت زمین بھی لی تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا یا سات زمینوں کا طوق اس کے گلے میں ڈالا جائے گا۔
نبی کریم ﷺ کے زمانے میں رومن ایمپائر کے ایک بادشاہ، ہریکیولس، نے نبی ﷺ کی خدمت میں اعتراض کے طور پر ایک خط لکھا تھا کہ آپ مجھے اس جنت کی طرف بلا رہے ہیں جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کے برابر ہے تو پھر یہ بتائیں کہ ایسے میں جہنم کہاں گئی؟ اس پر آپ ﷺ نے جواب بجھوایا کہ جب دن آتا ہے تو رات کہاں چلی جاتی ہے؟ اس جواب پر ہریکیولس کے دربار میں موجود یہودیوں پر خاموشی چھا گئی تھی۔ لیکن پھر بھی وہ اپنی ڈھٹائی میں بولے کہ ضرور آپ نے یہ بات توریت سے لی ہوگی۔
جیسے ہر آسمان کی کمپوزیشن مختلف ہے یعنی کہ کوئی آسمان پانی کا بنا ہوا ہے کوئی سونے کا اور کوئی ایسی روشنی کا جسے ہم سمجھ نہیں سکتے۔ ویسے ہی یقیناََ ہر زمین کی کمپوزیشن composition بھی مختلف ہوگی۔ وہ ہماری ارض سے بالکل مختلف قسم کی کوئی ارض ہوگی کیونکہ سورۃ الطلاق کی آیت میں ان ہی آسمانوں کی طرح کی زمینوں کا لفظ ہے۔ کون جانتا ہے کہ وہ دوسری ارض کس مٹیریل material سے بنی ہوگی؟
عبدالرحمٰن۔ سنو۔
قرآن پاک میں کم سے کم سات مرتبہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت خالق کا ذکر ہے لیکن سورۃ الحجر میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت خلاق کی بھی ہے؟ عربی زبان میں خالق اور خلاق میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ خالق کہتے ہیں کسی چیز کے بنانے والے کو لیکن خلاق کہتے ہیں کسی چیز کے originator کو جس نے وہ چیز پہلی مرتبہ بنائی ہو اور جو بناتا ہی چلا جا رہا ہو۔ سورہ الغافر کے مطابق آسمانوں اور زمین کا تخلیق کرنا تو انسان کی تخلیق سے بہت بڑا کام ہے۔ تو کیا اتنے بڑے پیمانے پر تخلیق کرنے والے خلاق کے لیے کوئی دوسری مخلوق پیدا کرنا کیا کچھ مشکل ہے؟
سورۃ الزاریات کے مطابق یقین کرنے والوں کے لیے اس ارض میں بہت سی نشانیاں ہیں۔
ہماری زمین کا ایک عنصرہے جسے ہم کاربن کہتے ہیں۔ اس زمین میں اس وقت بھی 1 سے 85 بلین بلین ٹن کاربن موجود ہے۔ تمہیں تو علم ہی ہے کہ کاربن وہ عنصر ہے جو کسی بھی دوسرے عنصر سے زیادہ کمپاؤنڈز بنانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ کوئلہ، ہیرا، سنگ مرمر سب کاربن کے مرکبات ہیں۔ اب تک کاربن کے ایک کروڑ کمپاؤنڈز کے متعلق تو ہمیں پتا ہے کہ وہ بنا سکتی ہے لیکن اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ تم کہو گے کہ یہ کمپاؤنڈز تو بے جان ہیں جن میں کوئی زندگی نہیں ہے۔ پھر ان کا تذکرہ یہاں کیوں؟
وہ اس لئے کہ کاربن سے صرف بے جان کمپاؤنڈز ہی نہیں بنتے۔ اس وقت ہم چھ لاکھ ایسے کمپاؤنڈز کو جانتے ہیں جو بے جان یا ان اورگینک inorganic ہیں لیکن ان چھ لاکھ کے مقابلے میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کمپاؤنڈز ایسے ہیں جو آرگینک organic ہیں جو زندگی کے لیے ضروری ہیں۔ اسی لیے تو ہم زمین پر پائی جانے والی زندگی کو کاربن بیس لائف carbon based compound کہتے ہیں۔ کاربن سے بنی ہوئی زندگی۔ دراصل کاربن اور زندگی کا اتنا گہرا تعلق ہے کہ زندگی کی 123 تعریفوں میں سے ایک تعریف یہ بھی ہے کہ زندگی کاربن ایٹمز کے چند دوسرے ایٹمز کے ساتھ بانڈنگ کا نام ہے۔
یوں تو قرآن پاک میں کئی جگہ انسان کے مٹی سے بنائے جانے کا ذکر ہے لیکن سورہ الحجر کی آیت نمبر 26 میں خاص طور پر کالی سڑی ہوئی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کرنے کا ذکر ہے۔
وَلَقَد خَلَقنَا الاِنسَانَ مِن صَلصَالٍ مِّن حَمَاٍ مسَّنُون۔
اس صلصال یعنی کالی سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی کی اصل حقیقت کیا تھی؟
شاید۔ کاربن سے جو کالی سڑی ہوئی مٹی نکلتی ہے۔
یہ اسی کا تذکرہ ہو۔ واللہ اعلم۔ خدا حافظ