Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sarfaraz
  4. Salsaal (2)

Salsaal (2)

صلصال (2)

عبدالرحمٰن۔

اب ایک بات تو بڑی وضاحت کے ساتھ سامنے آگئی کہ کم سے کم ہماری یہ چھوٹی سی زمین ارض نہیں ہے۔ یہ زمین تو پوری کائنات میں پھیلی ہوئی ارض کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ سورۃ حامیم سجدہ کے مطابق ارض کی تخلیق اور اس کے پھیلا دیے جانے کا یہ عمل پورے چار دن میں ہوا تھا اب یہ دن کس طرح کے تھے؟ کیا یہ ہمارے چوبیس گھنٹے والے دن تھے؟ ہم انہیں کیسے سمجھ سکتے ہیں؟

اس ارض کا پھیلاؤ ہماری زمین سے لے کر کائنات کے ان گمنام کونوں تک ہے جن کے بارے میں آج تک کوئی نہیں جان سکا اور سچ کہوں تو اب سمجھ آ رہے ہیں کہ کیا جتنی طاقتور تخلیق آسمان کی تھی اتنی ہی عظیم الشان تخلیق ارض کی نہیں ہے؟

ارض کا پھیلاؤ تو اس کائنات میں ہر طرف ہے۔ لیکن کیوں؟

آخر ارض کو اتنے بڑے درجے پر کیوں پھیلایا گیا؟

اس سوال کے جواب کے لیے میں تمہارے سامنے قرآن پاک میں اس ارض اور اس کے پھیلاؤ کے بارے میں چند آیات سناتا ہوں:

سورۃ الرحمان: اس ارض کو تمام جانداروں کے رہنے کے لیے پھیلا دیا گیا ہے لیکن کون سے جاندار۔

سورۃ لقمان: ارض میں طرح طرح کے جاندار رہ رہے ہیں۔

سورۃ الانعام: ارض کے ان جانداروں میں بالکل ہماری ہی طرح کے گروہ بھی ہیں یعنی کہ مختلف اقسام۔

سورۃ یاسین: ہماری طرح ارض میں جہاں جہاں جاندار موجود ہیں وہ بھی ہماری طرح جوڑوں کی صورت میں تخلیق ہوئے ہیں۔

سورۃ یاسین: ارض میں جانداروں کے علاوہ ان چیزوں کے جوڑے بھی ہیں جنہیں ہم جانتے تک نہیں۔

سورۃ النحل: ان جانداروں کے مختلف رنگ اور مختلف شکلیں ہیں یہ سب دیکھنا اسی کے ذمہ ہے جس نے اس ارض کو اور اس میں رہنے والوں کو بنایا ہے یعنی کہ اللہ رب العزت۔

سورۃ شوریٰ: جانداروں کا پوری کائنات میں پھیلی اتنی بڑی ارض میں اس طرح پھیلا دیا جانا رب تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔

سورۃ آل عمران: ارض کے رہنے والے تمام جاندار چاہیں یا نہ چاہیں اللہ ہی کے زیر حکم ہیں۔

شاید اب تم احساس کر پاؤ کہ ارض کا کونسپٹ concept کس قدر عظیم ہے۔ یہ صرف ہماری دنیا کی بات نہیں ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ یہ ارض کہاں کہاں تک پھیلی ہوئی ہے اور اس میں رہنے والے جاندار کائنات کے کس کس کونے میں موجود ہیں۔ اور وہ کس کس تعداد میں ہیں۔ کیونکہ سورۃ مدثر کے مطابق اللہ کے لشکروں کو سوائے اللہ کے اور کوئی بھی نہیں جانتا۔ سورۃ نحل کے مطابق وہ بہت سے ایسی چیزیں بھی پیدا کرتا ہے جن کا ہمیں کچھ پتا نہیں۔ لیکن سورۃ شوریٰ کے مطابق اللہ جب چاہے انہیں جمع بھی کر سکتا ہے۔

عبدالرحمٰن۔

اس سے زیادہ واضح اور کیا ثبوت ہوگا کہ انسان کے علاوہ بھی کئی طرح کی مخلوقات ارض میں موجود ہیں؟ فرق صرف ارض کے لفظ کو سمجھنے کا ہے۔ ارض کے ہر حصے میں رہنے والے اللہ ہی کی مخلوق ہیں۔ چاہے وہ ارض کا یہ حصہ ہو جس میں ہم رہتے ہیں یا پھر کائنات کے کسی دور دراز گمنام حصے میں موجود ارض پر رہنے والی کوئی مخلوق ہو جن کے بارے میں ہمیں کچھ پتا نہیں۔ وہ سب بھی ہماری طرح خوشی یا نہ خوشی چاہتے یا نہ چاہتے۔ اللہ کے حکم سے تسبیح کرتے رہتے ہیں لیکن ہم ان کی تسبیحات کو سمجھ نہیں سکتے اور ہم سمجھ بھی کیسے سکتے ہیں۔ نجانے اس ارض میں رہنے والے جاندار کس کس قسم کی بولی بولتے ہیں؟

خیر یہ بات کہیں اور نکل گئی۔ ہمارا موضوع ہے ارض کا وہ حصہ جسے ہم زمین کہتے ہیں۔ یہ دنیا۔ ہمارا سیارہ۔

ہماری اس دنیا کی ابتداء 4 سے 5 ارب سال پہلے ہوئی تھی۔ ایسا ہم اس لئے مانتے ہیں کیونکہ آج تک ہمیں اس دنیا پر اس سے زیادہ پرانا element نہیں ملا۔ وہ تھے آسٹریلیا سے ملنے والے zircon crystals۔ ساڑھے چار ارب سال پہلے اس زمین پر بڑے بڑے پتھروں کی شدید بارش ہو رہی تھی۔ ہر تھوڑے عرصے بعد ایک پتھر زمین سے ٹکراتا اور سب کچھ ختم ہو جاتا۔ ایک ویران، بنجر، مردہ سا سیارہ جہاں کچھ بھی اگ نہیں سکتا تھا۔

لیکن پھر ایک معجزہ ہوا۔

سورۃ الحدید میں ارشاد ہے کہ اللہ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے اور ہم نے تمہارے لیے اپنی نشانیاں بیان کر دی ہیں تاکہ تم سمجھو۔

ایسے ہی ایک بڑے سے پتھر سے ٹکرانے سے زمین کے اندر کی گیسز باہر نکل آئیں جو ایک دھوئیں کی شکل میں اس کی گرد اکٹھی ہوگئیں۔ اب اس دھوئیں میں گیسز کے ساتھ ساتھ پانی کے بخارات بھی تھے۔ یہاں سے زمین کی فضا atmosphere بننا شروع ہوا۔ زمین ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی اور اس دھویں میں موجود بخارات بارش کی طرح زمین پر برسنے لگے۔

اور پھر وہ ہوا جس کا ذکر سورۃ النحل، سورۃ العنکبوت اور سورۃ الجاسیہ تینوں میں ہے کہ اللہ ہی تو ہے جس نے آسمان سے پانی اور جو کچھ بھی چاہا اسے اتار کر زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کیا۔ اسی بارش نے سمندر بنائے۔ یہاں ایک اور چونکا دینے والی بات ہے کہ سائنسی طور پر جن سمندروں کو اسی وقت فوراََ جم جانا چاہیے تھا (کیونکہ ہمارا سورج بھی اس وقت ویسا نہیں تھا جیسا آج ہے۔ وہ بھی نیا نیا پیدا ہوا ایک ستارہ تھا جس کی روشنی اور حدت آج کے مقابلے میں 30% کم تھی) لیکن پھر بھی ہمارے سمندر جمے نہیں اور یہ ایک معجزہ ہی تھا۔

عبدالرحمٰن۔

یہاں رک کر سورۃ النمل کی 61 آیت میں پڑھ لو کہ اللہ نے زمین کو قرار دیا۔ اسے stable کیا۔ اس نے زمین میں پانیوں کو جاری کیا اس نے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان رکاوٹ بنائی۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس نے ان پانیوں میں ایسی کون سی رکاوٹیں رکھی تھی کہ اتنی سردی کے باوجود وہ سمندر نہیں جمے۔ پانی جاری رہے اور ان پانیوں کا جاری رہنا ضروری بھی تھا کیونکہ ان میں زندگی پیدا ہونی تھی۔ سورۃ الانبیاء کے مطابق ہر زندہ چیز پانی سے پیدا کی گئی ہے۔ ان ہی پانیوں سے تو زندگی نے نکلنا تھا۔

Check Also

Final Call Ka Nateeja Sifar

By Muhammad Riaz