Perfect Ecosystem (4)
پرفیکٹ ایکو سسٹم (4)
ان وینس فگرز کو کون تراش رہا تھا کیوں تراش رہا تھا یہ بات کوئی نہیں جانتا۔
پوری دنیا کے مختلف ملکوں اور ہزاروں سالوں پر بنے اس وینس فگرینز کی ایک ایکسپلینشن ہو سکتی ہے کہ وہ لوگ وہ بنا رہے تھے جو وہ اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھ رہے تھے انسانی عورتوں کا صرف اور صرف افزائش نسل کے طور پر تراش کر دکھانے کی کوشش کی اور جو سلوک وہ ان عورتوں کے ساتھ ہوتا دیکھ رہے تھے اس کے لیے چہرہ اور پاؤں بنانا غیر ضروری تھا وہ ایک طرح سے پتھروں کے مجسموں کے ذریعے اپنے آنکھوں کے سامنے ہوتی کہانی کو فلما رہے تھے اسی لیے ایک طویل عرصے تک ان کے مجسمے کے ڈیزائن میں کوئی فرق نہیں آیا وہ وہی تراشتے رہے جو وہ ہزاروں سال سے ہوتا دیکھتے چلے آرہے تھے۔
اگر اس ساری بات میں ذرا سا بھی سچ ہیں تو اس اولاد کا کیا کہ جو اس سب کے نتیجے میں پیدا ہو رہی تھی جو زمین پر ایک بیماری کی طرح پھیل رہی تھی اور جس سے زمین کو پاک کرنے کے لیے بک آف اینوخ کے مطابق ایک ایسا سیلاب ضروری ہوگیا تھا جو پوری دنیا کو دھو دے۔۔
1940 میں فرانس کی ایک غار میں ایک بہت عجیب و غریب سا ریلیف ملا تھا یہ ریلیف کسی نے چٹان میں 35000 سال پہلے بنایا تھا اور یہ اتنا عجیب و غریب ریلیف ہے کہ اسے نام ہی The Sorcerer of Grotte di Gabilo یعنی گابیلو کی غار کا جادوگر کا دیا کیا۔ انسانوں کے سے انداز میں بیٹھا ایک ہرن جس کے سر پر سینگ بھی ہے جس کا جسم اور سر تو ہرن جیسا ہی ہے لیکن اس کے بازو اور ٹانگیں انسانوں جیسے ہیں فرانس ہی کی ایک اور غار میں تیرہ ہزار سال پہلے ایک اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب پینٹنگ ملی تھی، اس پینٹنگ کا نام ہے The Sorcerer of Trois. Ferres یعنی فریرس کی غار کا جادوگر جس کی پچھلی دونوں ٹانگیں انسانی ہیں اس کے دونوں ہاتھ انسانی ہیں اس کا چہرہ بھی انسانی ہیں لیکن اس کا جسم اور اس کے کھڑے ہونے کا انداز جانوروں جیسا ہے اور یہ بھی کہ اس کے سر پر سینگ ہے ان سب سے پرانا ایک چھوٹا سا مجسمہ جسے آج سے 38000 سال پہلے کسی نے تراشا تھا "لو این مینچ" یہ ایک جرمن لفظ ہے جس کا انگلش میں ہوتا ہے The Lion Man ایک ایسا مجسمہ جس کا پورا جسم انسانی ہے لیکن اس کا سر شیر کا ہے اور یہ مجسمہ آج بھی جرمنی کے میوزئیم میں موجود ہے۔
غاروں میں بنی پینٹنگز کی پوری ایک کٹیگری ہے جس میں دو چیزیں بڑی ہی عجیب دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ایک تو ان میں ایسے ایسے کریکٹرز بنے ہوئے ہیں جو آدھے انسان اور آدھے جانور ہیں اور دوسری یہ کہ ان میں ایسی تصویریں بھی پینٹ ہوئی ہیں جن میں انسان کا جسم بدل رہا ہے۔۔
ایک سوال ہے کہ آج سے 38000 سال پہلے جب ابھی زراعت بھی شروع نہیں ہوئی تھی جب کسی قسم کی سیولائیزیشن کا نام و نشان بھی نہیں تھا جب ابھی گھر بھی سہی تنا سے نہیں بننا شروع ہوئے تھے تو کیا؟ تب وہ لوگ اتنے تخیلاتی تھے کہ بارہ سنگھے اور انسان کا ہائیبریڈ شیر اور انسان کا ہائیبریڈ اور انسانوں کی طرح بیٹھے ہوئے ہرن یا ہرن کی طرح چلتے ہوئے انسانوں کو تصور کر رہے تھے شاید نہیں۔۔ شاید وہ لوگ وہی تراش رہے تھے جو اس وقت وہ اپنی آنکھوں کے سامنے چلتا پھرتا دیکھ رہے تھے اور شاید انہیں چیزوں سے اس دنیا کو پاک کرنے کے لیے ایک عظیم سیلاب کا آنا ضروری تھا۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ یہ کشتی تقریباً ایک سو پچاس دن تک پانی میں رہی اور کشتی جودی پہاڑ پر جا ٹھہری اور دس محرم کا دن تھا تو اس کشتی پر موجود نوحؑ کے تین بیٹے ہام، سام اور یافس دنیا کے مختلف علاقوں میں چلے گئے۔ ایک روایت کے مطابق سام کی نسل میں سے عرب اور ایشیا کے لوگ نکلے۔ ہام کی نسل میں سے ایفریقی اور یافس کی نسل میں سے ترک اور رومنز یعنی یورپینز نکلے.
پھر ہوا ایک نئے انسانی دور کا آغاز اور شاید پہلی مرتبہ باقاعدہ انسانی آبادیاں بننا شروع ہوئیں یعنی رہنے کی وہ قسم کہ جس سے آج ہم واقف ہیں۔۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ایک روایت ہے کہ جودی پہاڑ سے اترنے کے بعد نوحؑ نے ایک گاؤں آباد کیا تھا۔۔ کشتی پر موجود لوگوں اور نوح کے تینوں بیٹوں کے دنیا میں پھیل جانے کے بعد آہستہ آہستہ ایک ایسی دنیا شکل میں آنی شروع ہوئی جسے آج ہم پہچانتے ہیں۔
انسان نے زراعت کو با قاعدہ ایک پیشے کے طور پر اپنایا مستقل بستیاں قائم کیں خوراک کی نئی نئی شکلیں پیدا ہونا شروع ہوئیں۔جانوروں کو پالتو بنانے کی پریکٹس شروع ہوئیں۔ گائے، بکری، گدھے اور سب سے اہم بات کہ انسان دنیا کی تمام علاقوں میں پھیل گئے لیکن یہ سب کچھ ایک ہی دن میں نہیں ہوا تھا بلکہ دھیرے دھیرے ہوا۔۔
کتنا دھیرے دھیرے؟ یوں سمجھ لو کہ صرف موویشیوں کی فل رینج کو ڈمیسٹیکیٹ ہونے میں مزید چھ ہزار سال لگ گئے تھے۔
ایک بڑی دلچسپ بات ہے کہ مجھے اس کشتی پر ایک بچے کے پیدا ہونے کے ٹریسز بھی ملے تھے۔ لیکن اس سے پہلے میں تم سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کیا تم نے سوچا کہ سیلاب آیا صاف جانوروں کو بچایا بھی گیا اور ایک مرتبہ پھر سے یہ جانور دنیا میں پھیل کر آباد ہو گئے لیکن جانوروں کی سپیشیز کی تقسیم اتنی عجیب سی کیوں ہوئی؟
مثلاً کینگروز صرف آسٹریلیا میں ہی کیوں ملتا ہے؟ مکاؤ کے طوطے صرف برساتی جنگلوں یعنی ایمزون میں ہی کیوں آباد گئے؟یا چیتا صرف افر یقہ میں ہی کیوں ملتا ہے؟
تم کو سورہ فاطر کی اٹھائیسوی آیت یاد ہے کہ انسانوں اور جانوروں اور چارپایوں کے بھی کئی طرح کے رنگ ہیں۔۔
ایک مر تبہ سورہ الجاسیہ کی چوتھی آیت کو بھی پڑھو کہ "اور تمہاری پیدائش میں بھی۔ اور جانوروں میں بھی جن کو وہ پھیلاتا ہے یقین کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں"
لیکن ذرا سوچو کہ مختلف مزاج والے جانوروں کے اس طرح پھیل جانے میں کونسی نشانی ہے؟
یہ ایک پرفیکٹ ایکو سسٹم ہے۔
ایک پرفیکٹ ایکو سیسٹم یعنی اس دنیا میں رہنے والے تمام جانداروں کا پرفیکٹ بیلنس۔۔
ایک مرتبہ تم جانوروں کے رنگ ان کے مزاج کو سٹڈی کرو اور پھر ایکو سسٹم میں ان کے رہنے کی جگہ کو دیکھو۔۔ تو پھر تم کو سمجھا آئے گی کہ وہ دنیا میں اس طرح سے کیوں پھیلے اور میں دل سے مانتا ہوں کہ ان کے اس طرح پھیلا دیے جانے میں اللہ ہی بڑی واضح نشانیاں موجود ہیں۔