Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Muhammad Sarfaraz/
  4. Nafs e Mutmainna

Nafs e Mutmainna

نفس ِ مطمئنہ

"کھی کھی۔ "آواز پھر سے آئی کچھ سرگوشیاں کافی بلند تھیں "لگتا ہے انکل گھر سے لڑ کر آئے ہیں "۔ ارے نہیں، آنٹی نے ہرا دھنیا منگوایا تھا۔ انکل پودینہ لے گئے، اب ڈر کے مارے گھر نہیں جا رہے۔ "نا چاہتے ہوئے بھی اس کے لب مسکراہٹ روک نہ پائے۔ اس نے جیب سے موبائل نکال کر ٹائم چیک کیا۔ وہ اب تقریباً ایک گھنٹے سے یہاں بیٹھا تھا۔ لیکن اس کے خیالات اب بھی دھندلے، غیر واضح تھے۔ مسجد کا پر سکون اور ٹھنڈا ماحول اس کو جکڑے ہوئے تھا۔ "ایسی ٹھنڈک تو میرے آفس کے امپورٹڈ اے سی بھی نہیں دیتے۔ "

اس نے نظر اٹھا کر مسجد کے پرانے سے اے۔ سی کو دیکھا۔ وہ اپنا کوٹ اتار کر سائیڈ پر رکھ چکا تھا۔ ٹائی ڈھیلی ہو کر گردن سے لٹک رہی تھی۔ وہ عصر کی نماز میں شامل نہیں ہوا تھا شائد اسی لیے یہ بچے حیران ہو کر اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ وہ یہاں نماز پڑھنے نہیں آیا تھا۔ اسے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ یہاں کیوں آیا ہے؟ وہ فرار کی تلاش میں تھا۔ ذہنی سکون چاہتا تھا یا شاید کچھ وقت خود اپنے لئے۔ وہ چھپ جانا چاہتا تھا، ہمیشہ کے لئے نہ سہی کم از کم کچھ وقت کے لیے ہی سہی۔ زندگی ایک رولر کوسٹر کی سواری ہے۔

گھماؤ اور موڑ، اتار، چڑھاؤ، خوشیوں اور دکھ۔ لیکن؟ لیکن زندگی کیا ہے؟ میں کس چیز کے لیے جدوجہد کر رہا ہوں؟ میں کسی بھی چیز میں خوشی کیوں نہیں پا رہا؟ زندگی سے اور کیا چاہئے؟ یہ سوال اسے کئی دنوں سے پریشان کر رہے تھے۔ موبائل فون کی تھرتھراہٹ سے اس کی سوچوں میں خلل پڑا۔ اس نے جیب سے فون باہر نکالاعلیزے کی کال تھی، یہ اس کی نئی گرل فرینڈ تھی۔ اس نے کال مسترد کر دی اور اپنا سیل آف کر دیا۔ اس کا خیال تھا کہ عورتیں اسے خوشی دیں گی اور ایسا ہوابھی لیکن صرف عارضی طور پر۔

یونی ورسٹی کی سب سے حسین اور امیر لڑکی سے اس نے شادی کی۔ کچھ دن وفادار بھی رہا مگر پھر نئی نئی لڑکیاں اس کی زندگی میں آنے اور جانے لگیں لیکن وہ جلد ان سے بور ہوجاتا تھا۔ وقتی خوشی!پیسے کا بھی یہی حال تھا۔ باپ کا کاروبار اور وہ اکیلا وارث۔ سب کچھ مل گیا لیکن سب بے سود رہا۔ اطمینانِ قلب محسوس کرنے میں ناکام رہا، ذہنی سکون ایک کھوئے ہوئے خواب کی طرح ہوچکا تھا۔ وہ مسلسل بے چین تھا۔ یہاں تک کہ ماہر نفسیات اور مسکن ادویات بھی بیکار ہو چکی تھیں کچھ بھی اس کی مدد نہیں کر رہا تھا، اس نے مسجد سے نکلنے کا سوچا۔ وہاں بیٹھنا بیکار تھا۔

خانہ خدا تھا لہٰذا کسی نے کچھ نہیں کہالیکن سوالیہ نظریں خاموشی سے اس کے پرتکلف ملبوس کو تک رہی تھیں۔ اور و ہ سوچ رہا تھا کہ اگر کوئی اس سے سوال کرے تو کیا کہوں گا؟ اس کے پاس اپنے لیے کوئی جواب نہیں تھاان متقی لوگوں کو کیا جواب دوں گا؟ یہ جو اللہ کے مقرب تھے۔ جب کہ اس نے طویل عرصے سے کوئی دعا بھی نہیں کی، اپنے لیے بھی نہیں۔ اس نے کسی اور جگہ جانے کا فیصلہ کیا لیکن اس کا جسم جم گیا، جیسے اس جگہ کو چھوڑنے سے انکار کر رہا ہو۔ اسے یہاں آئے ہوئے ایک گھنٹہ سے زیادہ ہو گیا تھا وہ جانا چاہتا تھا لیکن اس کا دماغ فیصلہ کن قوتوں سے محروم ہو رہا تھا یا کوئی نادیدہ قوت اسے یہاں پکڑے بیٹھی تھی۔

یایتھا النفس المطمئنۃ۔ ارجعی الی ربک۔ (Al Quran: Surah Al Fajr)

کوئی بچہ مسلسل گردان کرنے لگا اور بے ساختہ اس گردان نے اس کی توجہ مبذول کر لی۔ مکمل مطلب سمجھنے سے قاصر، اس کا دماغ "نفس المطمئنہ" کے الفاظ پر اٹک گیا۔ کیا اس کا مطلب مطمئن روح ہے؟ اس نے حیرت سے سوچا۔ انسان کی روح کیسے مطمئن ہو سکتی ہے؟ اس نے فوراً اپنے آپ سے سوال کیا۔ نہ ختم ہونے والی اذیت، ذہنی انتشارکیا یہ کبھی ختم ہوسکتا ہے؟ مغرب کی اذان ہو رہی تھی۔ اس نے اٹھ کر اللہ سے مدد مانگنے کا فیصلہ کیا۔

وہ طویل عرصے سے دنیا کا پیچھا کر رہا تھا اور خود کو کھو بیٹھا تھا۔ ہو سکتا ہے یہ وقت رک جائے اور اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ یقیناً اطمینان کا واحد راستہ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرنا ہے۔ لیکن کیا مجھے معاف کر دیا جائے گا؟ اندر سے سوال اٹھا، ضرور کر دے گا۔ جواب بھی ترنت ہی موصول ہو گیا تھا۔ وہ خالص دل کے ساتھ اپنے ربّ کی رحمت کو آزمانے کا ارادہ کر چکا تھا۔ سیدھی راہ پا چکا تھا۔ فلاح پانے والا تھا۔

Check Also

Azad Kashmir Ki Ehtejaji Tehreek Aur Media Ki Hudood

By Nusrat Javed