Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Sarfaraz
  4. Metaverse (2)

Metaverse (2)

میٹا ورس (2)

عبدالرحمان۔

حضرت ادریس حضرت آدمؑ کے بعد آنے والے وہ نبی ہیں جن کا نام کے ساتھ قرآن پاک میں دو مرتبہ ذکر ہے۔ ایک جگہ سورہ انبیاء میں اور دوسری جگہ سورہ مریم میں ان الفاظ کے ساتھ کہ اس کتاب میں ادریس کا بھی ذکر کیجئے کہ وہ بھی نیک کردار پیغامبر تھے۔

ایک حدیث کے مطابق شیثؑ کے بعد سب سے زیادہ صحیفے یعنی تیس صحیفے حضرت ادریسؑ پر اترے تھے۔ ادریسؑ نے آدمؐ کی زندگی کے 308 سال دیکھے ہیں اور زیادہ تر تفصیل میں ملتا ہے کہ وہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے قلم ایجاد کیا اور درس دینے یعنی تعلیم دینے یا واضح نصیحت کا آغاز کیا تھا۔

آپ ﷺ کی معراج والی احادیث کو سٹڈی کریں بخاری، مسلم اور معراج کی تمام احادیث میں یہی ہے کہ جب نبی کریم ﷺ چوتھے آسمان پر پہنچے تو وہاں آپ نے حضرت ادریسؑ کو دیکھا تھا۔

ابن ابی حاتم میں ایک حدیث لکھی گئی ہے کہ جب حضرت ادریس کے پاس ان کا دوست فرشتہ آیا تو انہوں نے فرشتے سے کہا کہ میں ملک الموت سے جاننا چاہتا ہوں کہ میری زندگی کتنی باقی بچی ہے تاکہ میں اپنے نیک لوگوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ بڑھا لوں لہٰذا اس فرشتے نے انہیں اپنے پروں میں بٹھا لیا اور آسمانوں کی طرف اُڑتا چلا گیا یہاں تک کہ چوتھے آسمان میں انہیں ملک الموت مل گئے اور اس فرشتے نے ملک الموت کو ادریس کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو بتائی تو ملک الموت نے پوچھا کہ اس وقت ادریس کہاں ہیں؟ مجھے پروردگار کی طرف سے یہ حکم دے کر بھیجا گیا ہے کہ ان کی روح چوتھے آسمان میں قبض کرنی ہے اور میں نے سوچا تھا کہ وہ تو زمین میں ہیں تو ان کی روح چوتھے آسمان پر کیسے نکالوں گا؟ اور تب پھر ملک الموت نے ادریس کی روح چوتھے آسمان پر قبض کی۔ سورہ مریم کی ایک آیت 57 کے مطابق "اور ہم نے انہیں بلند مقام پر اٹھا لیا تھا"۔

1946 کے فلسطین میں دو چرواہے بچے پہاڑوں میں اپنی بکریاں چرارہے تھے تو ایک بچے نے کھیل کھیل میں ایک غار کے اندر کچھ پتھر پھینکے تو اندر سے ایسی آواز آئی کہ جیسے مٹی کا کوئی برتن ٹوٹنے کی آواز آتی ہے ان دونوں بچوں نے غار میں جا کر دیکھا تو مٹی کے کچھ بہت ہی پرانے مرتبان پڑے ہوئے نظر آئے جن میں صدیوں پرانے کچھ صفحات پڑے تھے اور یہی وہ خزانہ تھا جسے آج ہم Dead Sea Scrolls کے نام سے جانتے ہیں اس کتاب میں بڑی حیرت انگیز اور نہائیت دلچسپ باتیں لکھی ہوئی ہیں مثلاً آنے والا سیلاب کیوں ضروری تھا؟ یا آنے والےمسیح کا دور کیسا ہوگا؟ اس کتاب میں حضرت عیسیٰؑ کے حوالے سے بھی پیشنگوئیاں لکھی ہوئی ہیں۔

ان میں ایک کتاب تھی جسے مصحف حنوق کا نام دیا گیا تھا یعنی حنوق کا صحیفہ — [ہنوک، خنوق، اینوخ یہ دراصل ادریسؑ کے مختلف نام ہیں ]

آج ہم اس کتاب کو The Book of Enoch کے نام سے جانتے ہیں یہ کتاب سفید اور ریشمی چمڑے پر جیز زبان میں لکھی گئی تھی یعنی کہ ایتھوپیا کی ایک پرانی زبان جو ایک ہزار سال پہلے ہی معدوم ہو چکی ہے لیکن اس کتاب کا ترجمہ بڑی محنت کے ساتھ 1950 میں پولینڈ کے ایک عیسائی اسکولر جوزیف میلک Józef Milik نے کیا تھا کہ جو چھے ماڈرن زبانوں کے علاوہ تیرہ معدوم ہوچکی زبانوں کا بھی ایکسپرٹ تھا [اللہ جسے چاہے کسی صلاحیت سے نواز دے]

اس کتاب میں لکھا ہے کہ ایک دن ایسا آنا ہے جس میں سب کو اپنے اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا اس حساب کے بعد انہیں انعام ملے گا یا پھر سزا ملے گی اس کتاب میں ایک ایسے آسمان یا جنت کا بھی ذکر ہے جس میں تخت پڑے ہوئے ہوں گے موت کے بعد ایک ایسی زندگی کا بھی ذکر ہے کہ جس میں فرشتے ہوں گے۔ یہ کتاب بات کرتی ہے گناہگاروں کو ملنے والی سزا کی اس میں لکھا ہے کہ ایک دن ایسا آنے ہے کہ جب مردے زندہ ہوں گے اس کتاب میں ایک ایسے دن کا بھی ذکر ہے کہ جس دن آخری فیصلہ ہوگا اور پھر ایک نیا جہان سامنے لائے جائے گا جہاں گناہگار سزا پائیں گے اور جہاں نیک لوگ روشنی، خوشی، آمن اور ایک اچھی جگہ میں رہیں گے۔

کیا لگ رہا ہے کہ یہ کس نے لکھی ہوگی تو یقیناً آپ کا یہی جواب ہوگا کہ صاف صا ف نظر آرہا ہے کہ یہ کتاب شاید کسی زمانے کی آسمانی کتاب ہوگی، قیامت، روز جزاوسزا اور ہمیشہ کی زندگی والے concept۔

لیکن یہ کتاب ایک اور علم کے بارے میں بھی بات کرتی ہے اس میں ایک ایسے شمسی کلینڈر Solar Calendar کے بارے میں بتایا گیا ہے جس میں تاریخوں کا بڑا واضح concept ہے۔ ایک ایسا سال جس میں تین سو چونسٹھ دن ہیں، جس میں چار موسم ہیں اور ہر موسم اکانوے دن یعنی کہ 91 days یعنی کہ تین ماہ تک چلتا ہے بلکہ اس میں یہ ذکر بھی ہے کہ ان چار موسموں میں سے ایک موسم ایسا بھی ہے کہ جس میں تمام درختوں کے پتے گر چاتے ہیں [سوائے چودہ درختوں کے جو ہر دو سے تین سال بعد اپنے پتے بدلتے ہیں ] یعنی کہ آج کے حساب سے خزاں کی باتیں ہیں – اس کتاب میں باون ہفتے بھی ہیں اور آج تک یہ علم نہیں ہو سکا کہ ہزاروں سال پرانے اس لٹریچر میں انہوں نے ایک tropical year یعنی 365 دنوں یعنی باون ہفتوں والے سال کا کیس طرح پتا چلایا تھا؟

اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہر سال بدھ سے شروع ہوتا ہے۔ [شاید تمہیں پتا نہ ہو کہ بدھ کے دن روشنی کی تخلیق کی گئی تھی یعنی نور کی]

اس کے علاوہ اس کتاب میں ایک قمری یعنی لونر کیلینڈر calendar lunar یعنی چاند کی تاریخوں کے اعتبار سےکلینڈر بھی ہے ستاروں کی موومنٹ کہ وہ ایک جیسے راستوں پر چلتے ہیں اور راستہ نہیں بدلتے۔

بارہ قسم کی آ ب و ہوا، دنیا کی چار سمتیں ان کے شمال، مشرق اور جنوب اور مغرب۔ سات بڑی زمینیں یعنی آج کے حساب سے سات برعظم، اس کتاب میں فلسفیانہ باتیں بھی ہیں مثلاً سفید رنگ پاکیزگی کی علامت اور کالا رنگ گناہ کی علامت ہوتا ہے۔

عبدالرحمان!

اب تمہارا اس کتاب کے بارے میں کیا خیال ہے یہ کتاب نہ صرف مذہبی معلومات کی ہے بلکہ اس میں تو بڑی سائنسی باتیں بھی ہیں۔ وقت اور سال اور تاریخیں، آب و ہوا، سولر اور لیونر کلینڈرز، ستا روں کی موومنٹس وغیرہ۔

ان فیکٹ اس کتاب کے مضمون کو مغربی دنیا میں اس قدر سنجیدہ لیا جاتا ہے کہ 2015 انگلینڈ میں اسکالرز کی ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں اس کی اہمیت پر بات کی گئی تھی اور اس میٹنگ کے نتائج دو سال بعد مختلف موضوعات کی شکل میں شایع ہونا شروع ہوئے تھے مثلاً انصاف کے اصول، سیاسی اور مذہبی نظام، ماحولیات، انسان کی شناخت، تکلیف، نیکی اور بدی کی تعلیمات وغیرہ۔ اس کتاب کے انگلش ترجمے کے بالکل شروع میں لکھا ہے کہ یہ پیغمبر خنوخ کی وہ کتاب ہے جو صدیوں پہلے کھو چکی تھی اور اب آ کر صحراے سینا سے دوبارہ ملی ہے۔

اس کتاب The Book of Enoch میں بھی خنوخ (ادریس)کے ایک آسمانی سفر کا ذکر ہے کہ کیسے انہوں نے جنوب اور مشرق کی طرف سفر کیا اور پھر وہ ایک ٹرائینگل یعنی ایک تکون شکل کی جگہ سے آسمان کی طرف گئے۔ پھر وہ آسمان میں موجود ستاروں کا ذکر کرتے ہیں اور ان چیزوں کا جو وہ اپنے دوست فرشتہ کے ساتھ اس آسمانی سفر میں دیکھ رہے تھے۔

عبدالرحمان

ان فیکٹ The Book of Enoch کے اس واقعے کو اس کی اصل زبان سے جب یونانی میں ترجمہ کیا گیا تو حضرت ادریس کے اس سفر کے لیے یونانی لفظ میٹا ٹیتھمی metatithemi کا استعمال ہوا ہے یعنی ایک جہاں سے دوسرے جہاں میں جانا اور تمہاری دلچسپی کے لیے بتا دیتا ہوں کہ فیس بک والا لفظ میٹا ورس metaverse دراصل اسی لفظ سے ماخوذ ہے جو آپ کو ایک جہاں سے دوسرے جہاں میں لے جاتا ہے۔

Check Also

Riyasat Ke Daimi Idaron Ko Shayad Ab Kuch Naya Karna Pare

By Nusrat Javed